چین کو اب 245 فیصد تک نئے محصولات کا سامنا کرنا پڑے گا، امریکا
امریکا اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ مزید شدت اختیار کرگئی، ٹرمپ انتظامیہ نے کہا ہے کہ چین کو اب 245 فیصد تک نئے محصولات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
عالمی خبر رساں اداروں رائٹرز ، اے ایف پی اور انادولو ایجنسی میں شائع رپورٹوں کے مطابق وائٹ ہاؤس نے منگل کی شب جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ چین کی جوابی کارروائیوں کے نتیجے میں اب اسے 245 فیصد تک کے نئے محصولات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے منگل کو رات گئے ایک انتظامی حکم جاری کیا گیا جس کے تحت اہم وسائل کی درآمدات کی قومی سلامتی کے حوالے سے تحقیقات شروع کی گئ ہیں، اس حکم میں 2 اپریل کو اعلان کردہ جوابی محصولات کی وضاحتیں بھی شامل ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ چین کو اب اپنی جوابی کارروائیوں کے نتیجے میں امریکا میں درآمدات پر 245 فیصد تک کے محصولات کا سامنا ہے۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ پہلے دن ہی، صدر ٹرمپ نے امریکا کی معیشت کو دوبارہ عظیم بنانے کے لیے اپنی ’امریکا فرسٹ ٹریڈ پالیسی‘ کا آغاز کیا تھا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ 75 سے زائد ممالک پہلے ہی نئے تجارتی معاہدوں پر بات چیت کے لیے امریکا سے رابطہ کر چکے ہیں، اس کے نتیجے میں، ان مذاکرات کے دوران چین کے علاوہ، جس نے جوابی کارروائی کی ہے،دیگر ممالک کے لیے عائد کردہ بلند محصولات کے نفاذ کو فی الحال روک دیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ چند ماہ قبل، چین نے گیلیم، جرمینیم، اینٹیمونی اور دیگر اہم ہائی ٹیک مواد کی امریکا کو برآمدات پر پابندی عائد کر دی تھی، جو فوجی سازوسامان کی تیاری میں استعمال ہوسکتا ہے۔
وائٹ نے مزید کہا ہے کہ صرف اسی ہفتے، چین نے چھ بھاری نادر زمینی دھاتوں کے ساتھ ساتھ نادر زمینی مقناطیس کی برآمدات بھی معطل کر دی ہیں، تاکہ دنیا بھر میں کار سازوں، ایرو اسپیس مینوفیکچررز، سیمی کنڈکٹر کمپنیوں اور فوجی ٹھیکیداروں کے لیے لازمی اجزا کی سپلائی کو روکا جا سکے۔
بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ چین کو کس شرح سے محصولات کا سامنا ہے، لیکن اس نے اشارہ دیا کہ محصولات کی شرح 245 فیصد تک جا سکتی ہے۔
چین نے گزشتہ جمعہ کو امریکی اشیا کی درآمدات پر اپنے محصولات میں 125 فیصد اضافہ کر دیا تھا، جو ٹرمپ کے اس اقدام کے جواب میں کیا گیا تھا جس میں انہوں نے چینی اشیا پر امریکی محصولات کو 145 فیصد تک بڑھا دیا تھا جبکہ دیگر ممالک کی اشیا پر مجوزہ لیویز پر 90 دن کی مہلت دے دی تھی۔
چین نےامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان پر کہ ’ بیجنگ پر منحصر ہے کہ وہ اپنے تجارتی جنگ کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات کی میز پر آئے،’ ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ’ دھمکیاں دینا اور بلیک میل کرنا بند کرے’۔
ٹرمپ نے امریکا کے حامی اور مخالف ممالک، دونوں پر نئے محصولات عائد کیے ہیں لیکن ان کے سب سے سخت اقدامات چین کے خلاف رہے ہیں۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لن جیان کا کہنا ہے کہ اگر امریکا واقعی بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہے، تو اسے دباؤ ڈالنا، دھمکیاں دینا اور بلیک میل کرنا بند کرنا چاہیے، اور مساوات، احترام اور باہمی فائدے کی بنیاد پر چین سے بات کرنی چاہیے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ چین کا موقف بہت واضح ہے، محصولات کی جنگ یا تجارتی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا، چین لڑنا نہیں چاہتا، لیکن وہ لڑنے سے ڈرتا بھی نہیں ہے۔
رواں سال، ٹرمپ نے چین سے درآمد کیے بہت سے سامان پر 145 فیصد اضافی محصولات عائد کیے ہیں، جو پچھلی انتظامیہ کے عائد کردہ محصولات کے علاوہ ہیں۔
ٹرمپ نے ابتدائی طور پر فینٹینیل ( نشہ آور اور دافع درد کیمیائی مرکب) کی سپلائی چین میں مبینہ کردار پر چین سے درآمدات پر 20 فیصد محصولات عائد کیے، پھر واشنگٹن کی جانب سے غیر منصفانہ سمجھے جانے والے تجارتی طریقوں پر 125 فیصد اضافی محصولات عائد کیے۔
تاہم، ٹرمپ انتظامیہ نے بعض ٹیکنالوجی مصنوعات ، جیسے اسمارٹ فونز اور لیپ ٹاپ، کو تازہ ترین لیوی سے عارضی طور پر چھوٹ دی ہے۔
وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں مزید کہا گیا کہ اس تنازع کو ختم کرنے کے لیے پہلا قدم اٹھانا بیجنگ پر منحصر ہے، جس کے بارے میں ماہرین اقتصادیات نے خبردار کیا ہے کہ اس سے عالمی کساد بازاری ہو سکتی ہے۔
پریس سیکرٹری کیرولین لیوٹ کی جانب سے پڑھ کر سنائے جانے والے ٹرمپ کے ایک بیان میں کہا گیا، ’ گیند چین کے کورٹ میں ہے، چین کو ہمارے ساتھ معاہدہ کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں اس کے ساتھ معاہدے کی ضرورت نہیں ہے۔’