روس اور یوکرین کے درمیان معاہدے کے آثار نظر نہیں آئے تو ثالثی کی کوششوں سے دستبردار ہوجائیں گے، امریکا
امریکا نے کہا ہے کہ اگر روس اور یوکرین کے درمیان معاہدہ ہونے کے واضح آثار نظر نہیں آئے تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ امن معاہدے کی ثالثی کی کوششوں سے چند روز میں دستبردار ہوجائیں گے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے یہ بیان جمعے کو دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس-یوکرین امن معاہدے کی ثالثی کی کوششوں سے چند دنوں میں دستبردار ہو جائیں گے اگر معاہدہ ہونے کے واضح آثار نظر نہ آئیں۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے یورپی اور یوکرینی رہنماؤں سے ملاقات کے بعد پیرس میں کہا کہ ہم یہ کوشش ہفتوں اور مہینوں تک جاری نہیں رکھیں گے، لہذا ہمیں اب بہت جلد، صرف چند روز میں یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا معاہدہ اگلے چند ہفتوں میں ہوسکتا ہے یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ ممکن نہیں ہے، تو مجھے لگتا ہے کہ صدر شاید اس مقام پر ہیں جہاں وہ کہیں گے، ’ٹھیک ہے، ہم اپنی کوششوں سے دستبردار ہوتے ہیں۔‘
امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو کے بیان پر پیرس، لندن، برلن یا کیف سے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں آیا، رائٹرز کو تین یورپی سفارتی ذرائع نے بتایا کہ مارکو روبیو کے تبصرے جنگ کے خاتمے کے لیے روسی ہٹ دھرمی پر وائٹ ہاؤس میں بڑھتی ہوئی مایوسی کی عکاسی کرتے ہیں۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ امن معاہدے پر کچھ پیش رفت پہلے ہی ہو چکی ہے لیکن واشنگٹن کے ساتھ رابطے مشکل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ روس اپنے مفادات کو یقینی بناتے ہوئے تنازعہ کو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن، ماسکو امریکا کے ساتھ بات چیت کے لیے بھی تیار ہے۔
مارکو روبیو کی یہ دھمکی یوکرین کے ساتھ امریکی مذاکرات میں کچھ پیش رفت کے اشارے کے درمیان سامنے آئی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ روز کہا تھا کہ وہ اگلے ہفتے کیف کے ساتھ معدنیات کے معاہدے پر دستخط کرنے کی توقع رکھتے ہیں، واضح رہے کہ فروری میں یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کی ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس کے ساتھ اوول آفس میں جھڑپ کے بعد معدنیات کے معاہدے کی کوشش ناکام ہو گئی تھی۔
جمعرات کو پیرس میں ہونے والے مذاکرات ٹرمپ کی امن کوششوں پر پہلی بامعنی، اعلیٰ سطحی اور ذاتی بات چیت تھی جس میں یورپی طاقتیں بھی شامل تھیں۔
مارکو روبیو نے کہا کہ انہوں نے جو امریکی امن فریم ورک پیش کیا اسے ’ حوصلہ افزا پذیرائی’ ملی جبکہ زیلنسکی کے دفتر نے بھی مذاکرات کو تعمیری اور مثبت قرار دیا۔
یہ واضح نہیں تھا کہ امریکی وزیرخارجہ کے لہجے میں راتوں رات اتنی ڈرامائی تبدیلی کیوں آئی۔ تاہم، جمعہ کے روز ان کے تبصرے بڑھتے ہوئے جیو پولیٹیکل چیلنجز سے نمٹنے کی کوششوں میں پیش رفت کی کمی پر وائٹ ہاؤس میں بڑھتی ہوئی مایوسی کو اجاگر کرتے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران وائٹ ہاؤس میں اپنے پہلے 24 گھنٹوں کے اندر یوکرین میں جنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا، عہدہ سنبھالنے پر انہوں نے اس دعوے سے یوٹرن لیتے ہوئے اپریل یامئی تک روس اور یوکرین کے درمیان امن معاہدے کا اشارہ دیا۔
انہوں نے دونوں فریقوں پر مذاکراتی میز پر آنے کے لیے دباؤ ڈالا، اور روس پر سخت پابندیاں عائد کرنے اور یوکرین کے لیے اربوں ڈالر کی امریکی فوجی امداد ختم کرنے کی دھمکی دی۔
یوکرین اور روس دونوں سعودی عرب میں امریکی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات میں شریک ہوئے، جس کے نتیجے میں جزوی جنگ بندی ہوئی، لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکا۔
اگر واشنگٹن دستبردار ہو جاتا ہے، تو امن کی ثالثی کی کوششیں غالباً ناکام ہو جائیں گی کیونکہ کوئی دوسرا ملک ماسکو اور کیف دونوں پر اسی طرح کا دباؤ ڈالنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔











لائیو ٹی وی