4 سرکاری پاور پلانٹس کیساتھ نظر ثانی شدہ معاہدوں سے ایک ہزار 580 ارب کی بچت ہوگی
حکومت نے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) سے باضابطہ طور پر کہا ہے کہ وہ 4 پبلک سیکٹر پاور پلانٹس سے بجلی کی خریداری کے نرخوں میں کمی کی اجازت دے، جس سے نظر ثانی شدہ معاہدوں کے تحت ان کی باقی مدت میں تقریباً ایک ہزار 580 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درخواست میں معاہدوں کی شرائط میں ’ٹیک یا پے‘ سے ’ہائبرڈ ٹیک اینڈ پے‘ ماڈل میں تبدیلی، شرح منافع میں کمی اور ڈالر انڈیکسیشن کی حد 168 روپے مقرر کرنا شامل ہے۔
نیپرا نے 4 سرکاری پاور پلانٹس (جی پی پیز) اور پاور ڈویژن کے ادارے سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) کی جانب سے مشترکہ طور پر پیش کی گئی تجویز پر غور کے لیے 24 اپریل کو عوامی سماعت مقرر کی ہے۔
تقریباً 3 ہزار 700 میگاواٹ کی مجموعی صلاحیت کے حامل ان 4 پاور پلانٹس میں بلوکی اور حویلی بہادر شاہ میں ایل این جی پر مبنی 2 منصوبے شامل ہیں، جن میں سے ہر ایک 1220 میگاواٹ (مجموعی طور پر تقریباً ایک ہزار 100 ارب روپے کی بچت کے ساتھ) اور 747 میگاواٹ کا گڈو پاور پلانٹ اور 510 میگاواٹ نندی پور پاور منصوبہ (مجموعی طور پر 355 ارب روپے کی بچت) شامل ہیں، چاروں پاور پلانٹس وفاقی حکومت کی ملکیت ہیں۔
ان چاروں منصوبوں کی وجہ سے مجموعی بچت صلاحیت چارجز، آپریشن اور دیکھ بھال کے اخراجات وغیرہ کی مد میں تقریباً ایک ہزار 580 ارب روپے بنتی ہے۔
ایک عہدیدار نے بتایا کہ بھکی اور ترموں میں پنجاب حکومت کے اسی طرح کے 2 ایل این جی منصوبوں کو شامل کرنے کے لیے رسمی کارروائیاں مکمل کی جارہی ہیں، جس سے سرکاری شعبے سے اب تک 2 ہزار 160 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
سی پی پی اے اور جی پی پیز نے اپنی مشترکہ درخواستوں میں بتایا کہ 19 مارچ کو وفاقی کابینہ کے باضابطہ معاہدے کے بعد 8 اپریل کو مذاکراتی تصفیے کے معاہدوں (این ایس اے) پر دستخط کیے گئے تھے، جس کا مقصد صارفین کے ٹیرف کو کم کرنا اور ’ہائبرڈ ٹیک اینڈ پے‘ ماڈل کے ذریعے عام لوگوں پر بوجھ کم کرنا تھا۔
درخواست گزاروں نے نیپرا سے درخواست کی تھی کہ وہ قومی مفاد اور صارفین کے فائدے کا حوالہ دیتے ہوئے قابل اطلاق ٹیرف فیس معاف کرے، این ایس اے کے تحت اہم ٹیرف اجزا کی تنظیم نو کی جائے گی، جس میں آپریشنز اور مینٹیننس (او اینڈ ایم) کی انڈیکسیشن بھی شامل ہے۔
نظر ثانی شدہ او اینڈ ایم اخراجات کو سہ ماہی طور پر انڈیکس کیا جائے گا، مقامی اور متغیر اجزا کو پچھلے 12 مہینوں کے لیے 5 فیصد سالانہ کی کم سے کم یا اصل اوسط نیشنل کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) پر ایڈجسٹ کیا جائے گا۔
طے شدہ غیر ملکی اور متغیر اجزا کے لیے، موجودہ انڈیکسیشن میکانزم جاری رہے گا، تاہم امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کو اصل سالانہ گراوٹ کا صرف 70 فیصد تک سمجھا جائے گا، اس کے برعکس روپے کی قدر میں کوئی بھی اضافہ مکمل طور پر صارفین پر منحصر ہوگا۔
ریٹرن آن ایکویٹی (آر او ای) جزو کو نظر ثانی شدہ حوالے کے طور پر اکتوبر تا دسمبر 2024 کی مدت کے لیے نیپرا کے مقرر کردہ سہ ماہی انڈیکسیشن کی بنیاد پر 168 روپے فی ڈالر کی مقررہ شرح تبادلہ پر 13 فیصد شرح منافع پر دوبارہ مقرر کیا جائے گا، اس کے بعد ایکسچینج ریٹ انڈیکسیشن نہیں ہوگا۔
مؤثر نفاذ کی تاریخ سے گنجائش کی خریداری کی قیمت (سی پی پی) انشورنس جزو کو پاس تھرو آئٹم سمجھا جائے گا، جو بجلی کی خریداری کے معاہدوں کے تحت بیمہ شدہ رقم کا 0.8 فیصد تک محدود ہے۔
این ایس اے کے تحت درخواست دہندگان نے ایک ’ہائبرڈ ٹیک اینڈ پے ماڈل‘ نافذ کرنے پر اتفاق کیا جس کے تحت کمپنی کو ٹیرف کی ادائیگی سی پی پی اے کی جانب سے ذیل کے مطابق کی جائے گی۔
مؤثر تاریخ سے موجودہ معاہدے کے سال کی بقیہ مدت کے لیے، اور اس کے بعد ہر معاہدے کے سال کے لیے، کمپنی سی پی پی کے حصے کے طور پر ٹیرف کے نظر ثانی شدہ آر او ای اجزا کا 35 فیصد حاصل کرنے کی حق دار ہوگی۔
مؤثر تاریخ سے، اگر کمپنی کی ترسیل اور ترسیل شدہ خالص برقی پیداوار (این ای او) کلو واٹ گھنٹے (کے ڈبلیو ایچ) کے لحاظ سے کُل معاہدے کی صلاحیت کے 35 فیصد سے زیادہ ہے، تو کمپنی ٹیرف کے آر او ای اجزا وصول کرنے کی حق دار ہوگی جس کا حساب، کے ڈبلیو ایچ کے لحاظ سے کُل معاہدے کی صلاحیت کے 35 فیصد سے زیادہ اصل این ای او پر لگایا جائے گا اور کمپنی مختلف سی پی پی معاہدے کا دعویٰ کرے گی۔
یہ ترامیم بجلی کی خریداری کے معاہدوں (پی پی اے) کی تنظیم نو کا حصہ ہیں، جس میں 29 آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) اور سرکاری ملکیت والے پاور پلانٹس شامل ہیں۔
پاور ڈویژن کے مطابق ان شرائط پر دوبارہ بات چیت سے 3 سے 20 سال تک کے کنٹریکٹ کی مدت میں مجموعی طور پر 3 ہزار 500 ارب روپے کی بچت متوقع ہے، جو ہر منصوبے کے کمرشل آپریشن کی تاریخ پر منحصر ہے۔