نیوکلیئر معاہدے کیلئے ایران اور امریکا کے درمیان روم میں مذاکرات، اگلے ہفتے ملاقات پر اتفاق
ایران اور امریکا کے درمیان روم میں جوہری مذاکرات کا دوسرا دور ختم ہو گیا، جس میں اگلے ہفتے ملاقات پر اتفاق کیا گیا، تاکہ تہران کے جوہری مقاصد پر کئی دہائیوں سے جاری تعطل کو حل کیا جا سکے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ایرانی حکام نے کہا کہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹ کوف ایک عمانی حکام کے ذریعے بالواسطہ بات چیت کریں گے، یہ مذاکرات مسقط میں بالواسطہ مذاکرات کے پہلے دور کے ایک ہفتے بعد منعقد ہو رہے ہیں، جسے دونوں فریقین نے تعمیری قرار دیا تھا۔
عباس عراقچی اور اسٹیو وٹ کوف نے پہلے دور کے اختتام پر مختصر بات چیت کی تھی، لیکن دونوں ممالک کے حکام نے سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں 2015 کے بعد سے براہ راست مذاکرات نہیں کیے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے مذاکرات سے قبل اپنے اطالوی ہم منصب کے ساتھ ایک ملاقات میں کہا کہ ایران ہمیشہ سفارت کاری کے لیے پرعزم رہا ہے اور انہوں نے مذاکرات میں شامل تمام فریقوں سے ایک معقول اور منطقی جوہری معاہدے تک پہنچنے کے موقع سے فائدہ اٹھانے کا مطالبہ کیا۔
ایران کے سرکاری میڈیا نے عباس عراقچی کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ اس طرح کے معاہدے کو ایران کے جائز حقوق کا احترام کرنا چاہیے اور اس کے جوہری کام کے بارے میں کسی بھی شکوک کو دور کرتے ہوئے ملک پر سے غیر منصفانہ پابندیوں کو ہٹانا چاہیے۔
اطالوی وزیر خارجہ انتونیو تاجانی نے ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ روم امن اور مذاکرات کا دارالحکومت بن گیا، مزید کہنا تھا کہ میں نے (عباس عراقچی) کو جوہری ہتھیاروں کے خلاف مذاکرات کے راستے پر چلنے کی ترغیب دی، اطالوی حکومت کی امید ہے کہ سب مل کر مشرق وسطیٰ کے لیے ایک مثبت حل تلاش کر سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ 12 اپریل کو ایران اور امریکا کے درمیان عمان کی میزبانی میں تہران کے جوہری پروگرام پر بالواسطہ مذاکرات کا آغاز ہوگیا تھا۔
غیر ملکی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ نے رپورٹ کیا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جوہری پروگرام پر معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں فوجی کارروائی کی دھمکی دے رکھی ہے۔
مذاکرات میں پیش رفت مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کو کم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں، جہاں پر 2023 سے غزہ اور لبنان میں تنازعات کے علاوہ ایران اور اسرائیل کے درمیان میزائل حملوں، بحیرہ احمر میں حوثی حملوں، اور شام میں حکومت کی برطرفی جیسے واقعات کے باعث کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
تاہم، مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں خطے میں تصادم کے خدشات مزید بڑھ جائیں گے۔