• KHI: Maghrib 7:14pm Isha 8:40pm
  • LHR: Maghrib 6:58pm Isha 8:33pm
  • ISB: Maghrib 7:08pm Isha 8:47pm
  • KHI: Maghrib 7:14pm Isha 8:40pm
  • LHR: Maghrib 6:58pm Isha 8:33pm
  • ISB: Maghrib 7:08pm Isha 8:47pm

کیا پاک-بھارت تنازع حل کرنے کے لیے کسی تیسرے فریق کو درمیان میں آنا ہوگا؟

شائع April 28, 2025

پاکستان اور بھارت ایک بار پھر خوفناک تصادم کے دہانے پر ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے برصغیر کو ایک بے یقینی کی صورت حال میں دھکیل دیا ہے جس کی وجہ سے بحران پھیلنے کا خطرہ بڑھ چکا ہے کیونکہ دو طرفہ بات چیت کے راستے کو مکمل نظرانداز کیا جارہا ہے جبکہ سفارتی تعلقات مزید بدتر ہورہے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں پہلگام حملے میں 26 شہریوں کی ہلاکت کے بعد سے بھارت نے پاکستان کے خلاف سخت اقدامات کیے ہیں۔ ان اقدامات میں سندھ طاس معاہدے کی معطلی بھی شامل ہے جو دو ہمسایوں کے درمیان سرحد پار دریاؤں کے بہاؤ اور پانی کے انتظام کو کنٹرول کرتا ہے۔ دیگر اقدامات میں اٹاری بارڈر کی بندش، ویزا کی منسوخی اور نئی دہلی میں تعینات پاکستانی ہائی کمیشن کے عملے کی تعداد کو محدود کرنا شامل ہے۔

بھارت کی جانب سے یہ نام نہاد جوابی سخت اقدامات پاکستان کے حملے میں ملوث ہونے کے حوالے سے تحقیقات اور شواہد کے بغیر کیے گئے۔ بھارت کے سیکریٹری خارجہ نے اپنے اعلامیے میں محض ’دہشتگرد حملے کے سرحد پار تانے بانے‘ کا ذکر کیا لیکن بھارتی میڈیا میں ایک منظم مہم چلائی جارہی ہے جس میں حملے کا الزام براہ راست پاکستان پر عائد کیا جارہا ہے۔

سب سے اہم وزیراعظم نریندر مودی نے حملے کے ذمہ داروں اور ان کے سرپرستوں کو ’ناقابلِ تصور سزا‘ کی دھمکی دی ہے۔ اس سے یہ قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہیں کہ بھارتی حکومت ہلاکتوں کا بدلہ لینے کے لیے کسی بڑی فوجی کارروائی کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

اس تمام تر صورت حال نے 2019ء کے بالاکوٹ واقعے کی یادیں تازہ کردی ہیں کہ جب بھارتی طیاروں نے پاکستان کی سرحدی حدود میں دراندازی کی کوشش کی اور عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر فضائی بمباری کی۔ پاکستان نے جموں میں اس ایئر اسٹرائیک کا جواب دیا تھا۔ تاہم بحران دوست ممالک کی مدد سے اس وقت حل ہوگیا تھا کہ جب پاکستان نے اس بھارتی پائلٹ کو رہا کیا جس کے جہاز کو پاکستان کی سرحدی حدود میں مار گرایا گیا تھا۔

23 اپریل کو بھارت کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے بعد پاکستان نے بھارتی اقدامات کے جواب میں محتاط انداز میں ردعمل دیا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری کردہ بیان میں بھارت کے خلاف جوابی اقدامات کیے گئے۔ کمیٹی نے بھارتی اقدامات کو ’یک طرفہ، غیرمنصفانہ اور غیرذمہ دارانہ‘ قرار دیا۔ قومی سلامتی کمیٹی نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کو مسترد کیا اور خبردار کیا کہ ’پاکستان سے تعلق رکھنے والے پانی کے بہاؤ کو روکنے یا اس کا رخ موڑنے‘ کی کسی طرح کی کوشش کو ’اعلانِ جنگ کے طور پر لیا جائے گا اور پاکستان اس کا بھرپور قوت سے جواب‘ دے گا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان بھی ’بھارت کے ساتھ تمام دوطرفہ معاہدوں‘ بشمول شملہ معاہدے کو معطل کرنے پر غور کرسکتا ہے لیکن کسی بھی معاہدے کو معطل نہیں کیا گیا۔ پاکستان نے بھی واہگہ بارڈر بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنی فضائی حدود کو بھارتی پروازوں کے لیے بند کیا جبکہ تمام تجارت بھی روک دی۔ یہ اقدامات، بھارتی اقدامات کی عکاسی کرتے ہیں۔

بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا فیصلہ یوں اچانک نہیں ہوا۔ گزشتہ کئی سال سے نئی دہلی 1960ء میں طے پانے والے پانی کی تقسیم کے معاہدے کے حوالے سے اپنے تحفظات ظاہر کررہا ہے جس نے 6 دہائیوں سے زائد عرصے میں کئی جنگیں، تصادم اور کشیدگی دیکھے ہیں لیکن یہ معاہدہ پھر بھی برقرار رہا۔ مگر حالیہ برسوں میں دونوں ممالک معاہدے کے تحت اپنے تنازعات حل کرنے کے طریقہ کار پر متفق نہیں تھے۔

مثال کے طور پر بھارت نے جنوری 2023ء میں ہیگ میں ہونے والی دریائے جہلم اور چناب پر ہائیڈروپاور پروجیکٹس کے حوالے سے سماعت کا بائیکاٹ کیا تھا جس کے ذریعے پاکستان پر پانی کے دباؤ میں اضافہ متوقع ہے۔ اس کے بجائے بھارت نے غیرجانبدار ماہر کا تقاضا کیا۔ جنوری 2023ء میں بھارت نے پاکستان کو مطلع کیا کہ وہ سندھ طاس معاہدے میں موجود تنازعات کی حل سے متعلق شقوں میں ترمیم کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس وقت ردعمل کے طور پر اسلام آباد نے متعلقہ ادارے مشترکہ انڈس واٹر کمیشن میں کسی بھی طرح کے تحفظات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے رضامندی ظاہر کی تھی جبکہ بھارت سے معاہدے کی تعمیل کا مطالبہ کیا تھا۔

اگست 2024ء میں نئی دہلی نے باضابطہ طور پر اسلام آباد سے سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی اور دوبارہ مذاکرات کے لیے کہا۔ پاکستان کے ساتھ رابطے میں بھارت نے اس میں ترمیم کرنے کا مطالبہ کیا جس کے لیے اس نے حالات میں ’بنیادی اور غیر متوقع تبدیلی‘ کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی خدشات کو بھی وجہ بتایا۔ بھارت نے ’آبادیاتی تبدیلیاں، ماحولیاتی چیلنجز اور صاف توانائی کی ترقی کو تیز کرنے کی ضرورت‘ سمیت دیگر مسائل پر تشویش کا اظہار کیا۔

24 اپریل کو پاکستان کو لکھے گئے بھارتی خط میں بھی انہی نکات کی بازگشت تھی لیکن اس معاہدے کو منسوخ کرنے کے لیے ’پاکستان کی جانب سے مسلسل سرحد پار دہشت گردی‘ کو نمایاں طور پر جواز کے طور پر استعمال کیا گیا۔

معاہدہ معطل کرنے کا بھارتی فیصلہ نہ معاہدے کی دفعات اور نہ ہی بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہے۔ یہ معاہدہ کسی بھی فریق کو یک طرفہ طور پر معطل کرنے یا ختم کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ دونوں فریقین کو اس کی دفعات کے مطابق معاہدے میں ترمیم یا اسے ختم کرنے پر رضامندی دینا ہوگی۔

بھارت کے اعلامیے میں کہا گیا کہ سندھ طاس معاہدہ ’فوری طور پر روک دیا گیا ہے اور یہ معطلی اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک پاکستان سرحد پار دہشت گردوں کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوجاتا‘۔ فی الوقت معطلی کا مطلب یہ ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ پانی کے بہاؤ کے ڈیٹا کا اشتراک اور پروجیکٹ ڈیزائن کے بارے میں معلومات کا تبادلہ بند کر دے گا لیکن بھارت تو یہ تبادلہ کئی سالوں قبل ہی بند کرچکا ہے۔

بھارت دباؤ بڑھانے کے لیے دیگر اقدامات کرسکتا ہے۔ لیکن وہ فوری طور پر پانی کا بہاؤ روک یا اس کا رخ نہیں موڑ سکتا کیونکہ ایسا کرنے کے لیے اس کے پاس انفرااسٹرکچر موجود نہیں ہے۔ تو اس فیصلے کے قلیل مدتی اثرات محدود ہوں گے۔ مگر بلاشبہ اس کے طویل مدتی سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔

فی الحال نئی دہلی کی جانب سے کسی بھی طرح کی فوجی کارروائی سب سے بڑا خطرہ ہے کیونکہ اس کی حوصلہ افزائی کرنے والے بھارتی حکام کے خیال میں سخت بیانات اور اقدامات ’مؤثر‘ بھارتی سفارتی حکمت عملی ہے جس کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ 24 اپریل کو مودی نے بہار میں کی گئی اپنے تقریر میں کہا کہ دہشتگردوں اور ان کے سرپرستوں کا ’دنیا کے آخری کونے‘ تک پیچھا کریں گے۔ اس بیان سے متوقع فوجی کارروائی کا مضبوط اشارہ ملتا ہے۔ یہ قیاس آرائیاں بھی گردش کررہی ہیں کہ روایتی فوجی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ سائبر حملوں اور غیرمتناسب کارروائیوں کا بھی سہارا لیا جائے گا۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحدوں پر بھاری ہتھیار تعینات کیے جاچکے ہیں۔

وزیراعظم نریندر مودی کا شاید یہ خیال ہو کہ وہ اسرائیل کی کتاب سے پاکستان کو ’سزا‘ دینے کا حربہ استعمال کرسکتے ہیں لیکن کسی بھی فوجی کارروائی کا پاکستان کی جانب سے منہ توڑ جواب یا جائے گا جس کے نئی دہلی پر غیرمتوقع اور غیریقینی نتائج مرتب ہوں گے۔ یوں حالات قابو سے باہر ہوسکتے ہیں جو 2019ء سے بھی سنگین ہوسکتا ہے۔

2019ء میں تیسرے فریق کی مدد سے بحران حل ہوا تھا۔ کیا اب بھی یہی ہوگا؟ اگر بروقت اس طرح کی کوئی مدد نہیں کی گئی تو جوہری ہتھیاروں سے لیس دو ہمسایوں کے درمیان صورت حال ماضی کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہوسکتی ہے۔

محدود جنگ کا تصور کہ جس میں حالات جوہری جنگ کے نہج تک نہ پہنچیں، انتہائی خطرناک ہے۔ ایسی صورت حال سے ہر صورت بچنا ہوگا۔ اگرچہ بھارت کو اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی لیکن کسی بھی غلط حساب سے بچنے، بحران کو قابو کرنے اور قابو سے باہر ہونے سے قبل اس سے نمٹنے کے لیے تاخیر کیے بغیر بیک چینل روابط کو بحال کیا جانا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اس کے نتائج انتہائی تباہ کُن ثابت ہوں گے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ملیحہ لودھی

لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 24 مئی 2025
کارٹون : 22 مئی 2025