8 دہائیوں سے امریکی بالادستی کے تحت تشکیل پانے والے ورلڈ آرڈر کا مستقبل داؤ پر لگ گیا
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد پہلے 100 دنوں میں انہوں نے ایک غیر متوقع مہم چلائی ہے جس نے قواعد پر مبنی عالمی نظام کے کچھ حصوں کو نقصان پہنچایا ہے، جسے واشنگٹن نے ’دوسری جنگ عظیم کی راکھ‘ سے بنانے میں مدد کی تھی۔
ڈان اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق صدر رونالڈ ریگن، جارج ڈبلیو بش اور ٹرمپ کے پہلے دور میں ایران اور وینزویلا کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی رہنے والے قدامت پسند ایلیٹ ابرامز نے کہا ہے کہ ’ٹرمپ 8 سال پہلے کے مقابلے میں اب کہیں زیادہ بنیاد پرست ہیں، میں حیران رہ گیا۔‘
ٹرمپ کے دوسری مدت کے ’امریکا فرسٹ‘ ایجنڈے نے دوستوں کو الگ تھلگ کر دیا ہے اور مخالفین کی حوصلہ افزائی کی ہے، جب کہ یہ سوالات بھی اٹھائے ہیں کہ وہ کس حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔
ان کے اقدامات اور اس غیر یقینی صورتحال نے بعض حکومتوں کو اس قدر پریشان کیا ہے کہ وہ ایسے طریقوں سے جواب دے رہی ہیں جن کو ختم کرنا مشکل ہو سکتا ہے، چاہے 2028 میں زیادہ روایتی امریکی صدر منتخب ہی کیوں نہ ہو جائے۔
یہ سب کچھ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ریپبلکن صدر کے ناقدین اسے ملک میں ڈیموکریٹک پارٹی کی پسپائی کے اشارے کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جس نے بیرون ملک خدشات کو جنم دیا ہے۔
ان میں ججز پر زبانی حملے، یونیورسٹیوں کے خلاف دباؤ کی مہم اور تارکین وطن کو جلاوطنی کی وسیع تر مہم کے حصے کے طور پر بدنام زمانہ ایل سلواڈور جیل میں منتقل کرنا شامل ہے۔
مشرق وسطیٰ میں ڈیموکریٹک اور ریپبلکن انتظامیہ کے سابق مذاکرات کار ڈینس راس کا کہنا ہے کہ ’ہم دیکھ رہے ہیں کہ عالمی معاملات میں بہت بڑا خلل پڑ رہا ہے، اس وقت کسی کو بھی یقین نہیں ہے کہ کیا ہو رہا ہے یا آگے کیا ہونے والا ہے۔‘
ٹرمپ کی جانب سے عالمی نظام کو ہلا کر رکھ دینے کا یہ اندازہ واشنگٹن اور دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں ایک درجن سے زائد موجودہ اور سابق حکومتی عہدیداروں، غیر ملکی سفارت کاروں اور آزاد تجزیہ کاروں کے انٹرویوز سے سامنے آیا ہے۔
بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ پہلے ہی ہونے والے کچھ نقصانات دیرپا ہوسکتے ہیں، لیکن اگر ٹرمپ اپنے نقطہ نظر کو نرم کرتے ہیں تو صورتحال پر کنٹرول کرنا ممکن ہوگا، وہ پہلے ہی اپنے ٹیرف کے وقت اور شدت سمیت کچھ معاملات پر پیچھے ہٹ چکے ہیں۔
لیکن انہیں ٹرمپ کی جانب سے ڈرامائی تبدیلی کے امکانات بہت کم نظر آتے ہیں، اور اس کے بجائے وہ توقع کرتے ہیں کہ بہت سے ممالک امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات میں دیرپا تبدیلیاں لائیں گے، تاکہ ان کی بے ترتیب پالیسی سازی سے بچا جا سکے، ان عوامل کے نتائج پہلے ہی شروع ہو چکے ہیں۔
مثال کے طور پر کچھ یورپی اتحادی امریکی ہتھیاروں پر انحصار کم کرنے کے لیے اپنی دفاعی صنعتوں کو فروغ دینا چاہتے ہیں، جنوبی کوریا میں اپنے جوہری ہتھیار تیار کرنے کے بارے میں بحث شدت اختیار کر گئی ہے، اور قیاس آرائیوں میں اضافہ ہوا ہے کہ بگڑتے ہوئے تعلقات امریکی شراکت داروں کو کم از کم معاشی طور پر چین کے قریب جانے پر مجبور کرسکتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے اس خیال کو مسترد کر دیا ہے کہ ٹرمپ نے امریکی ساکھ کو نقصان پہنچایا اور اس کے بجائے عالمی سطح پر سابق صدر جو بائیڈن کی ’بے باک قیادت‘ کے بعد اسے صاف کرنے کی ضرورت ہے۔
وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان برائن ہیوز نے ایک بیان میں کہا کہ صدر ٹرمپ، یوکرین اور روس دونوں کو جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی میز پر لاکر چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیزی سے اقدامات کر رہے ہیں، تاکہ فریقین کو جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی میز پر لایا جا سکے اور چین کو جوابدہ بنا کر امریکی کارکنوں کا تحفظ کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ، حوثیوں کو ان کی دہشت گردی کی قیمت بھی چکانے پر مجبور کر رہے ہیں اور ہماری جنوبی سرحد کو محفوظ بنایا ہے، جو 4 سال سے حملے کے لیے کھلی ہوئی تھی۔
21 اپریل کو مکمل ہونے والے رائٹرز/ایپسوس کے ایک سروے کے مطابق آدھے سے زیادہ امریکی، جن میں ہر 5 میں سے ایک ریپبلکن بھی شامل ہے، سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ روس کے ساتھ بہت قریبی طور پر منسلک ہیں اور امریکی عوام کو ان کے پیش کردہ توسیع پسندانہ ایجنڈے کے لیے بہت کم دلچسپی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ایسے عالمی نظام کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے جو گزشتہ 8 دہائیوں کے دوران بڑی حد تک امریکی بالادستی کے تحت تشکیل پایا ہے، یہ آزاد تجارت، قانون کی حکمرانی اور ازسرنو تشکیل پر مبنی ہے۔
تاہم ٹرمپ، جو کثیر الجہتی تنظیموں سے نفرت کرتے رہے ہیں، اور اکثر عالمی معاملات کو ایک سابق رئیل اسٹیٹ ڈیولپر کے لین دین کی عینک سے دیکھتے ہیں، کے تحت یہ عالمی نظم و نسق ہل رہا ہے۔
تجارتی شراکت داروں پر دہائیوں سے امریکا کو تباہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ٹرمپ نے ایک وسیع پیمانے پر محصولات کی پالیسی پر عمل درآمد شروع کیا، جس نے مالیاتی منڈیوں کو پریشان کیا ہے، ڈالر کو کمزور کیا اور عالمی اقتصادی پیداوار میں سست روی اور کساد کے خطرے میں اضافے کا انتباہ دیا ہے۔
ٹرمپ نے محصولات کو ضروری ’دوا‘ قرار دیا ہے، لیکن ان کے مقاصد واضح نہیں ہیں، حالانکہ ان کی انتظامیہ درجنوں ممالک کے ساتھ الگ الگ معاہدوں پر بات چیت کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے یوکرین میں روس کی 3 سالہ جنگ کے بارے میں امریکی پالیسی کو تبدیل کر دیا ہے، اور فروری کے اواخر میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ اوول آفس میں ایک میچ میں مشغول ہو گئے تھے۔
انہوں نے ماسکو کے ساتھ گرمجوشی کا اظہار کیا اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ وہ نیٹو کے حمایت یافتہ کیف کو علاقے کے نقصان کو قبول کرنے پر مجبور کر دیں گے، جب کہ وہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ بہتر تعلقات کو ترجیح دیتے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یورپ اور نیٹو کو نیچا دکھانے کی کوشش نے گہری بے چینی پیدا کر دی ہے، جو طویل عرصے سے بحر اوقیانوس کی سلامتی کا مرکزی ستون ہے۔
جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے فروری میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی کے بعد امریکا کے ساتھ یورپی تعلقات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ مشکل ہو گا کہ ’فرسٹ امریکا‘ رکھنے والوں نے واقعی اپنا نصب العین ’ تنہا امریکا’ بنا لیا ہو، یہ واقعی یورپ کے لیے ایسا ہے جیسے نصف شب میں صرف 5 منٹ باقی بچے ہیں۔
واشنگٹن کے عالمی تشخص کو ایک اور دھچکا دیتے ہوئے ٹرمپ نے توسیع پسندانہ بیان بازی کا استعمال کیا ہے، جسے جدید دور کے صدور نے طویل عرصے تک نظر انداز کیا، جس کے بارے میں بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر چین خود مختار تائیوان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے جواز کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔
اپنے پرجوش انداز کے ساتھ امریکی صدر نے اصرار کیا ہے کہ امریکا گرین لینڈ کو حاصل کرے گا، جو ڈنمارک کا نیم خود مختار جزیرہ ہے۔
انہوں نے کینیڈا کو یہ کہہ کر ناراض کر دیا کہ اس کے وجود کی کوئی وجہ نہیں اور اسے امریکا کا حصہ بننا چاہیے۔
انہوں نے پاناما کینال پر قبضہ کرنے کی دھمکی دی جسے 1999 میں پاناما کے حوالے کیا گیا تھا، اور انہوں نے تجویز پیش کی کہ واشنگٹن جنگ سے تباہ حال غزہ پر قبضہ کر لے اور فلسطینی انکلیو کو ریویرا طرز کے ریزورٹ میں تبدیل کر دے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ، سرد جنگ کی طرز کے عالمی ڈھانچے کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس میں بڑی طاقتیں اثر و رسوخ کے جغرافیائی دائرے تشکیل دیتی ہیں۔