یمن: امریکی بمباری سے حراستی مرکز میں قید 68 افریقی تارکین وطن ہلاک، درجنوں زخمی
یمن میں حوثیوں کے زیر کنٹرول حراستی مرکز پر امریکی فضائی حملے میں کم از کم 68 افریقی تارکین وطن ہلاک ہو گئے ہیں۔
بی بی سی نیوز کی رپورٹ کے مطابق یمنی حوثیوں کے المسیرہ ٹی وی نے خبر دی ہے کہ صوبہ سعدہ کے مرکز پر بمباری کے نتیجے میں مزید 47 تارکین وطن زخمی ہوئے، جن میں سے زیادہ تر کی حالت تشویش ناک ہے، المسیرہ نے گرافک فوٹیج پوسٹ کی جس میں تباہ شدہ عمارت کے ملبے میں ڈھکی ہوئی متعدد لاشوں کو دکھایا گیا ہے۔
امریکی فوج کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
تاہم امریکی سینٹرل کمانڈ نے اعلان کیا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 15 مارچ کو حوثی باغیوں کے خلاف فضائی کارروائی تیز کرنے کے حکم کے بعد سے اس کی افواج نے 800 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ ان حملوں میں سیکڑوں حوثی جنگجو اور متعدد حوثی رہنما مارے گئے ہیں، جن میں میزائل اور ڈرون پروگراموں کی نگرانی کرنے والے سینئر حکام بھی شامل ہیں۔
حوثیوں کے زیر انتظام حکام کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں درجنوں شہری ہلاک ہوئے ہیں، لیکن انہوں نے اس گروپ کے ارکان میں سے کچھ کی اموات کی اطلاع دی ہے۔
اتوار کی رات جب سعدہ میں تارکین وطن کے حراستی مرکز کو نشانہ بنایا گیا، تو اس میں مبینہ طور پر 115 افریقی قید تھے۔
یمن میں 11 سال سے جاری جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے انسانی بحران کے باوجود، تارکین وطن ہارن آف افریقہ سے کشتیوں کے ذریعے ملک میں پہنچ رہے ہیں، جن میں سے زیادہ تر کام کی تلاش میں ہمسایہ ملک سعودی عرب میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف مائیگریشن (آئی او ایم) کے مطابق اس کے بجائے انہیں استحصال، حراست، تشدد اور فعال تنازعات والے علاقوں کے ذریعے خطرناک سفر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صرف 2024 میں تقریباً 60 ہزار 900 تارکین وطن ملک پہنچے، جن میں سے اکثر کے پاس زندہ رہنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔
رواں ماہ کے اوائل میں حوثیوں کے زیر انتظام حکومت نے کہا تھا کہ بحیرہ احمر کے ساحل پر راس عیسیٰ آئل ٹرمینل پر امریکی فضائی حملوں میں کم از کم 74 افراد ہلاک اور 171 زخمی ہوئے تھے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ ٹرمینل ایک سویلین تنصیب تھی اور یہ حملے ’جنگی جرائم‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔
سینٹ کام کا کہنا ہے کہ اس حملے نے راس عیسیٰ کی ایندھن ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو تباہ کر دیا ہے، اور اس سے حوثیوں کی نہ صرف کارروائیاں کرنے کی صلاحیت متاثر ہوگی، بلکہ ان کی دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے لاکھوں ڈالر کی آمدنی بھی متاثر ہوگی۔
امریکا، یمن کے حوثیوں پر حملے کیوں کر رہا ہے؟
گزشتہ ماہ ٹرمپ نے حوثیوں کے زیر کنٹرول علاقوں پر بڑے پیمانے پر حملوں کا حکم دیا تھا اور دھمکی دی تھی کہ انہیں ’مکمل طور پر ختم‘ کردیا جائے گا، انہوں نے ایران کو متنبہ کر رکھا ہے کہ وہ اس گروپ کو مسلح نہ کرے جس کی ایران بار بار تردید کرتا رہا ہے۔
اتوار کے روز سینٹ کام نے کہا تھا کہ وہ اس وقت تک دباؤ بڑھاتا رہے گا، جب تک کہ اس مقصد کو پورا نہیں کر لیا جاتا، جو خطے میں جہاز رانی کی آزادی اور امریکی ڈیٹرنس کی بحالی ہے۔
نومبر 2023 سے اب تک حوثیوں نے بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں درجنوں تجارتی بحری جہازوں کو میزائلوں، ڈرونز اور چھوٹی کشتیوں کے حملوں سے نشانہ بنایا تھا، انہوں نے 2 کشتیوں کو غرق کر دیا، تیسری کو قبضے میں لے لیا اور عملے کے 4 ارکان کو ہلاک کر دیا تھا۔
حوثی باغیوں کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ میں فلسطینیوں کی حمایت میں کام کر رہے ہیں، اور انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ صرف اسرائیل، امریکا یا برطانیہ سے تعلق رکھنے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
حوثی گزشتہ برس بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں تجارتی بحری جہازوں کی حفاظت کے لیے مغربی جنگی بحری جہازوں کی تعیناتی یا سابق صدر جو بائیڈن کے حکم پر فوجی اہداف پر امریکی حملوں سے باز نہیں آئے تھے۔
جنوری میں عہدہ سنبھالنے کے بعد ٹرمپ نے حوثیوں کو ’غیر ملکی دہشت گرد تنظیم‘ قرار دیا تھا جسے بائیڈن انتظامیہ نے ملک کے انسانی بحران کو کم کرنے کی ضرورت کی وجہ سے ہٹا دیا تھا۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران یمن ایک خانہ جنگی کی وجہ سے تباہ حال رہا ہے، جو اس وقت شدت اختیار کر گئی، جب حوثیوں نے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت سے ملک کے شمال مغرب کا کنٹرول چھین لیا، اور امریکا کی حمایت یافتہ سعودی قیادت والے اتحاد نے اس کی حکمرانی کو بحال کرنے کی کوشش میں مداخلت کی۔
اطلاعات کے مطابق اس لڑائی میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، اور انسانی بحران پیدا ہوا ہے ، 48 لاکھ افراد بے گھر ہوئے اور ایک کروڑ 95 لاکھ یعنی نصف آبادی کو کسی نہ کسی قسم کی امداد کی ضرورت ہے۔