سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے پر بھارت کو بیک وقت متعدد عالمی فورمز پر گھسیٹنے کی تیاری

شائع April 30, 2025
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اس معاہدے کی یکطرفہ معطلی کو ایک غیر ضروری اقدام کے طور پر دیکھتی ہے — فائل فوٹو
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اس معاہدے کی یکطرفہ معطلی کو ایک غیر ضروری اقدام کے طور پر دیکھتی ہے — فائل فوٹو

پاکستان سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے اقدام پر بھارت کے خلاف بین الاقوامی قانونی کارروائی شروع کرنے کی تیاری کر رہا ہے اور ملک کے سب سے بڑے قانونی ادارے نے اس سلسلے میں حکومت کی مدد کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق وزیر مملکت برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ حکومت کم از کم 3 مختلف قانونی آپشنز کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے، جن میں اس معاملے کو عالمی بینک میں اٹھانا بھی شامل ہے، جو معاہدے کا سہولت کار ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان مستقل ثالثی عدالت یا دی ہیگ میں بین الاقوامی عدالت انصاف میں بھی کارروائی کرنے پر غور کر رہا ہے، جہاں وہ یہ دلیل دے سکتا ہے کہ بھارت نے معاہدوں کے قانون سے متعلق 1969 کے ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے۔

بیرسٹر عقیل کا کہنا تھا کہ قانونی حکمت عملی پر مشاورت تقریباً مکمل ہو چکی ہے، ’جلد‘ فیصلہ کیا جائے گا کہ کس فورم پر اپنا مقدمہ پیش کیا جائے گا اور ممکنہ طور پر اس میں ایک سے زیادہ طریقوں پر عمل کرنا شامل ہوگا۔

بھارتی حکام نے فوری طور پر ’رائٹرز‘ کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

نئی دہلی نے گزشتہ ہفتے مقبوضہ کشمیر میں پہلگام سیاحتی مقام پر حملے کے بعد عالمی بینک کی ثالثی میں 1960 کے سندھ طاس معاہدے کو ملتوی کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ معطلی اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک کہ ’پاکستان سرحد پار دہشت گردی کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو جاتا‘۔

اسلام آباد اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کرتا ہے اور نئی دہلی کے اقدامات کے جواب میں تمام تجارت معطل کر چکا ہے، اپنی فضائی حدود بھارتی ایئرلائنز کے لیے بند کر دی ہے۔

بیرسٹر عقیل نے مزید کہا کہ چوتھا سفارتی آپشن جس پر اسلام آباد غور کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھایا جائے۔

انہوں نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ تمام آپشنز میز پر موجود ہیں اور ہم رابطہ کرنے کے لیے تمام مناسب اور قابل فورمز کی پیروی کر رہے ہیں۔

وزیر مملکت نے کہا کہ معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل یا مؤخر نہیں کیا جا سکتا، معاہدے میں ایسی کوئی شق نہیں ہے۔

دونوں ممالک کے سرکاری حکام اور ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت فوری طور پر پانی کے بہاؤ کو نہیں روک سکتا، اس معاہدے کے تحت اسے پاکستان کو مختص کیے گئے 3 دریاؤں پر قابل ذکر ذخیرے کے بغیر صرف ہائیڈرو پاور پلانٹس یا ڈیم تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

لیکن حالات کچھ مہینوں میں بدلنا شروع ہو سکتے ہیں اور کسان، جو پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق پانی کی قلت سے متاثر ہیں، انہیں شدید تشویش ہے۔

سپریم کورٹ بار حکومت کی مدد کرے گی

دریں اثنا سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) نے 1960 کے سندھ طاس معاہدے کا معاملہ مناسب فورمز پر اٹھانے میں مدد کے لیے وفاقی حکومت کو قانونی معاونت فراہم کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔

کمیٹی کی سربراہی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکریٹری سلمان منصور، بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر میر عطا اللہ لانگو، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بیرسٹر سرفراز میتلو کے علاوہ بیرسٹر ایم ایچ سبحانی اور حافظ احسن کھوکھر کریں گے۔

ایک بیان میں وکلا کی سب سے بڑی تنظیم نے کہا کہ وہ بنیادی حقوق کے تحفظ، بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری اور قومی وقار اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے نگران کے طور پر اپنے کردار پر ثابت قدم ہے۔

1960 کا سندھ طاس معاہدہ ایک رسمی معاہدے کے علاوہ پاکستان کے وجود اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ عالمی بینک کی ثالثی میں طے پانے والے اس معاہدے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اس پر دستخط کرنے والا کوئی بھی ملک یکطرفہ طور پر اسے ختم نہیں کر سکتا، اس سے دستبردار نہیں ہو سکتا یا اسے روک نہیں سکتا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کے باوجود بھارت نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس معاہدے کو معطل کر دیا، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اس معاہدے کی یکطرفہ معطلی کو ایک غیر ضروری اقدام کے طور پر دیکھتی ہے، جس کا مقصد زیریں پانی کے بہاؤ میں خلل ڈالنا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 15 دسمبر 2025
کارٹون : 14 دسمبر 2025