پاکستان کو مطلوب انسانی اسمگلر ٹک ٹاک پر ویڈیوز کے ذریعے یورپ جانے کی ترغیب دینے میں مصروف
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کی تحقیقات کے مطابق پاکستانی حکام کو مطلوب مفرور انسانی اسمگلر ’ٹک ٹاک‘ پر ممکنہ طور پر محفوظ راستوں کا وعدہ کر کے بے سہارا لوگوں کو خطرناک اور مہلک راستوں سے یورپ آنے کی ترغیب دے رہا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق 30 سالہ خاور حسن کے کئی نام ہیں، لیکن فادی گجر کے نام سے مشہور ہے، یہ بہت سے دوسرے انسانی اسمگلروں سے مختلف ہے، اگرچہ دوسرے اسمگلر آن لائن یورپ کے غیر قانونی راستوں کی تشہیر کرتے ہیں، لیکن فادی گجر زیادہ محتاط ہے، جو زبانی طور پر اپنی خدمات کی تشہیر کرتا ہے۔
انسانی اسمگلر کی آن لائن موجودگی سفر کی ایڈٹ شدہ ویڈیوز تک محدود ہے اور بی بی سی ویریفائی نے اس کے جن ’گاہکوں‘ کی نشاندہی کی ہے وہ گجرات میں ان کے قصبے جورہ کے مقامی تھے، درحقیقت فادی کے کزن سفیان علی اور عاطف شہزاد ان لوگوں میں شامل تھے جنہیں کشتی کے سفر کے دوران تشدد کرکے ہلاک کر دیا گیا تھا، فادی نے ہی محفوظ سفر کا یقین دلاکر انہیں کشتی پر سوار کروایا تھا۔
مرنے والے سفیان کے چچا احسن شہزاد چوہدری نے تصدیق کی کہ ان کے بھتیجے کی فادی گجر سے دوستی تھی۔
فادی گجر سفیان اور عاطف (تینوں افراد) کو ٹک ٹاک ویڈیو میں ایک ساتھ دیکھا جا سکتا ہے جسے فادی کے اکاؤنٹ پر پوسٹ کیا گیا ہے، یہ ویڈیو موریطانیہ کے دارالحکومت نواکشوط کے ساحل کے کنارے واقع ایک ریسٹورنٹ میں فلمائی گئی تھی۔
اس ویڈیو کے آن لائن پوسٹ ہونے کے ایک ماہ کے اندر ہی سفیان اور عاطف کی موت ہو چکی تھی، دریں اثنا، فادی گجر مفرور اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو موریطانیہ کشتی حادثے میں ملوث ہونے کے الزام میں مطلوب ہے، اس حادثے میں کم از کم 43 پاکستانیوں سمیت متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
بی بی سی کے مطابق فیس بک پر خاور عرف فادی کی موجودہ لوکیشن استنبول سے متعلق ہے۔
لیکن مغربی افریقہ کے بحر اوقیانوس کے ساحل پر واقع موریطانیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ان کے آپریشن کا مرکز ہے اور یہی وہ جگہ ہے، جہاں سے تارکین وطن کی کشتی نے اپنے خطرناک سفر کا آغاز کیا تھا، یہ راستہ مہلک ہے، عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ اس سال 14 بچوں سمیت 170 افراد ہلاک یا لاپتا ہو چکے ہیں۔
پاکستانی حکام نے فادی گجر کو اس سانحے میں ملوث 10 اسمگلروں میں سے ایک قرار دیا ہے، اور اس کے خاندان کے کچھ افراد (اس کی والدہ اور اس کے ایک بھائی) کو یورپ جانے والے لوگوں سے رقم جمع کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔
بی بی سی ویریفائی نے نشاندہی کی کہ فادی گجر کی تازہ ترین ٹک ٹاک پوسٹس آذربائیجان کے شہر باکو میں بنائی گئیں، تاہم یہ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ آیا وہ اب بھی وہاں موجود ہیں یا نہیں۔
جب واٹس ایپ کے ذریعے (متاثرین کی جانب سے شیئر کیے گئے نمبر کے ذریعے) رابطہ کیا گیا تو فادی گجر نے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کا جواب دینے سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کے نام کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے، اور انہوں نے ’سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیا ہے‘۔