ججز تبادلہ کیس: تبادلوں کی اصل وجہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کا خط ہے، منیر اے ملک
سپریم کورٹ آئینی بینچ میں زیر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز تبادلہ اور سنیارٹی کیس میں منیر اے ملک نے دلائل دیے کہ ججز تبادلے کی اصل وجہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کا خط ہے، جس کے بعد تمام ججز ہی نشانے پر آ گئے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز سینیارٹی اور تبادلے کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
دوران سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججز کے وکیل منیر اے ملک عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ججز ٹرانسفر کرنے کی حکومت نے جو وجہ بتائی وہ مضحکہ خیز ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایکٹ کے مطابق ججز مختلف صوبوں سے تعینات ہو سکتے ہیں، قانون میں تبادلوں کا نہیں بلکہ صوبوں سے تعیناتی کا ذکر ہے۔
منیر اے ملک نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن نے 5 میں سے 2 آسامیوں پر تعیناتی کی، حکومت کہتی ہے کہ جوڈیشل کمیشن نے ججز نہیں لگائے تو ہم نے لگا دیے، ججز تبادلے کی اصل وجہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کا خط ہے، ان ججز نے خط میں حساس اداروں کی مداخلت کا ذکر کیا تھا، خط کے بعد تمام ججز ہی نشانے پر آ گئے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ایک جج کی ڈگری کا مسئلہ نکل آیا تو دوسرے جج کا بیرون ملک رہائش کا کارڈ مل گیا، اصل مسئلہ جسٹس عامر فاروق کی سپریم کورٹ تعیناتی کے بعد نئے چیف جسٹس کی تقرری کا تھا۔
دوران سماعت جسٹس نعیم اختر افغان نے منیر اے ملک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 6 ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں صدر، وزیر اعظم، وزارت قانون کا ذکر تک نہیں، ججز خط میں کسی جج کا بھی ذکر نہیں کیا گیا، خط میں حساس اداروں کی مداخلت کا ذکر کیا گیا۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ کے 6 ججز کا خط حساس اداروں سے متعلق تھا، موجودہ ججز کے تبادلوں سے حساس اداروں کا کیا تعلق بنتا ہے، کیا سیکیورٹی اداروں نے سارا نظام ختم کرکے خود کنٹرول کر لیا ہے؟
جسٹس شاہد بلال حسن نے منیر اے ملک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط کی بات کی، ججز نے خط میں مداخلت کا الزام لگایا، میرے بطور جج 13 سالہ کیریئر میں کبھی اس قسم کا واقعہ پیش نہیں آیا، مجھ سے آج تک کسی نے رابطہ نہیں کیا۔
جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس دیے کہ میں پہلے بھی ایک سوال پوچھ چکا ہوں، اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کا تبادلہ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے، کیا ماضی میں ٹرانسفر ہو کر آنے والے جج اسلام آباد ہائی کورٹ کا حلف لیتے رہے ہیں؟
وکیل منیر اے ملک نے موقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 200 کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس سے پہلے کسی جج کا ٹرانسفر نہیں ہوا، اسلام آباد ہائی کورٹ میں جتنے بھی ججز ٹرانسفر ہو کر آئے وہ آرٹیکل 193 کے تحت آئے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر اور تعیناتی سے متعلق تین آئینی شقیں ہیں، آرٹیکل 193، 197 اور 200 ججز کی تعیناتی اور ٹرانسفر کا ذکر کرتے ہیں، صرف ایک آرٹیکل 194 حلف کی بات کرتا ہے، قانون بنانے والوں نے اس کے علاوہ کہیں بھی حلف کی بات نہیں کی، آرٹیکل 194 کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز چیف جسٹس اسلام آباد سے حلف اٹھائیں گے۔
وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ بالکل میں یہ ہی بات کہنا چاہ رہا ہوں، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے، فرض کریں ایک جج اپنی ہائی کورٹ میں سینیئر ترین جج ہے، وہ کسی ایسی ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہو کر جاتا ہے جہاں پہلے سے 20 ججز موجود ہیں، ایسی صورتحال میں تو اپنی ہائیکورٹ کا سینیئر ترین جج دوسری ہائیکورٹ میں سینیارٹی لسٹ میں سب سے نیچے آئے گا؟
منیر اے ملک نے موقف اپنایا ایسے جج کو چاہیے کہ وہ آئے ہی نہ، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دلائل سے تو لگتا ہے ٹرانسفر فریش تعیناتی ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ کیا تینوں صوبائی ہائیکورٹس سے ٹرانسفر ہو کر آنے والے ججز کی آسامیاں خالی ہو چکی ہیں یا ابھی برقرار ہیں، اگر پوزیشنز خالی نہیں ہیں تو کیا دونوں ہائیکورٹس میں الگ الگ سینیارٹی لسٹیں برقرار رہیں گی؟
منیر اے ملک نے جواب دیا کہ بھارتی آئین کے مطابق تو جب ایک جج ٹرانسفر ہوتا ہے تو اس کی نشست خالی ہو جاتی ہے، ہمارے یہاں جب ایک جج استعفیٰ دے یا اسے ہٹایا جائے تو ہی اس کی نشست خالی ہوتی ہے۔
بعد ازاں، عدالت نے ججز تبادلہ و ٹرانسفر کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کے وکیل منیر اے ملک کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
واضح رہے کہ 31 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے دوسری ہائی کورٹ سے جج لا کر اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس بنانے کی خبروں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
ڈان نیوز کے مطابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے آئین کے آرٹیکل 200 کی شق (ون) کے تحت تین ججز کے تبادلے کر دیے تھے، جس کا نوٹی فکیشن وزارت قانون و انصاف کی جانب سے جاری کر دیا گیا تھا۔
نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کا لاہور ہائی کورٹ، جسٹس خادم حسین سومرو کا سندھ ہائی کورٹ اور جسٹس محمد آصف کا تبادلہ بلوچستان ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیا گیا۔