ججز سینیارٹی کیس: ماضی میں لاہور ہائیکورٹ کے تین ججز اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنے، جسٹس شاہد

شائع May 15, 2025
— فوٹو: سپریم کورٹ
— فوٹو: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ آئینی بینچ میں زیر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس میں پانچ ججز کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل مکمل کرلیے، جبکہ جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس دیے کہ ماضی میں لاہور ہائی کورٹ کے تین ججز اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔

سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

دوران سماعت پانچ ججز کے وکیل منیر اے ملک عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ججز کی سینیارٹی عدلیہ کی آزادی کے ساتھ منسلک ہے، آرٹیکل 175 (3) کے تحت عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ رکھا گیا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ سینیارٹی کا تعین کون کرے؟ جس پر منیر اے ملک نے کہا کہ سینیارٹی کا تعین چیف جسٹس کریں گے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس کی جانب سے سینیارٹی کے تعین کا اختیار انتظامی ہے، چیف جسٹس کے انتظامی فیصلے کیخلاف متاثرہ فریق کہاں رجوع کرے گا؟

منیر اے ملک نے کہا متاثرہ فریق مجاز عدالت سے داد رسی کے لیے رجوع کرے گا، جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس دیے کہ ماضی میں لاہور ہائی کورٹ کے تین ججز اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے جبکہ جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھاکہ لاہور ہائی کورٹ سے جسٹس سردار اسلم کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا۔

منیر اے ملک نے مؤقف اپنایا کہ جسٹس سردار اسلم کی تقرری آرٹیکل 193 کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جسٹس سردار اسلم کا تبادلہ نہیں کیا گیا تھا، ان کی بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ تعیناتی کی گئی تھی، صدر مملکت نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے لیے تبادلے کا نہیں، تقرری کا اختیار استعمال کیا۔

جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ اس وقت اٹھارہویں ترمیم اور جوڈیشل کمیشن نہیں تھا، اس وقت تقرری کا مکمل اختیار صدر پاکستان کے پاس تھا۔

جس پر منیر اے ملک نے دلائل دیے کہ لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کا آفس مختلف ہوتا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ اور دیگر ہائیکورٹس میں تقرری کیلئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل مختلف ہوتی ہے، ہر ہائیکورٹ کے جج کا حلف الگ اور حلف لینے والا بھی الگ ہوتا ہے، تبادلے پر آئے ججز کا عمل حلف اٹھانے سے مکمل ہوتا ہے۔ جب ایک جج دوسری ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہو کر آتا ہے، اس کا آفس تبدیل ہوتا ہے، آئین کے تحت آفس تبدیل ہونے کے بعد حلف لینا ضروری ہے۔

تبادلے پر آیا جج نیا حلف لے گا، اس پر آئین خاموش ہے، جسٹس محمد علی مظہر

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ تبادلے پر آیا جج نیا حلف لے گا، اس پر آئین خاموش ہے، آرٹیکل 200 کو آرٹیکل 175اے سے ملا کر پڑھنے سے کبھی جج کا ٹرانسفر نہیں ہوگا، آرٹیکل 200 کو آرٹیکل 175 اے سے ملانا تو نئی تقرری ہوگی۔ کوئی جج مستقل جج کا حلف اٹھاتا ہی نہیں ہے، پہلے ایڈیشنل جج کا حلف ہوتا ہے پھر جوڈیشل کمیشن کے ذریعے وہ مستقل ہوتا ہے، پھر اگر وہ جج چیف جسٹس بنے تو حلف لیتا ہے، ٹرانسفر کو نئی تعیناتی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

وکیل منیر اے ملک نے مؤقف اپنایا کہ جج کے ٹرانسفر کو عدلیہ کی آزادی کے تناظر میں دیکھا جائے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججز کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل مکمل کرلیے۔

وکیل حامد خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں لاہور ہائی کورٹ بار کی نمائندگی کر رہا ہوں، لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی 133 سال پرانی ہے، ایسوسی ایشن کے 25 ہزار وکلاء ممبرز ہیں، ججز کے تبادلے پر وکلاء کو بڑی تشویش ہے، وکلاء کا موقف ہے کہ ہمارے جوڈیشل سسٹم کیساتھ یہ کیا ہو رہا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ حامد خان صاحب، منیر اے ملک کافی دلائل دے چکے ہیں، کوشش کریں کہ منیر اے ملک کے دلائل نہ دہرائے جائیں۔

حامد خان نے مؤقف اختیار کیا کہ ججز ٹرانسفر کا کیس بد نیتی کا ہے، یہ قانون اور حقائق دونوں کی بد بیتی کا کیس ہے، 10 مئی 2023 کو ججز نے خط لکھا یہ سارا معاملہ وہاں سے شروع ہوا، اس وقت کے چیف جسٹس نے پانچ ججز کے خط پر کوئی موقف نا دیا، ججز اور ان کے حقوق کی حفاظت کسی بھی چیف جسٹس کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے، 2024 میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے ایک اور خط لکھا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اس خط میں جسٹس محسن اختر کیانی کے دستخط نہیں ہیں، حامد خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کون سا کیس کہاں لگنا ہے، اس کا فیصلہ انتظامی کمیٹی کرتی ہے۔

جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیے کہ پشاور ہائی کورٹ میں بھی یہی پریکٹس ہے، چیف جسٹس فیصلہ کرتے ہیں، انتظامی کمیٹی فیصلہ کرتی ہے، وکیل حامد خان نے کہا کہ جسٹس شوکت صدیقی کے دور میں بھی یہی ہوا تھا، جسٹس شوکت نے بھی یہی کہا تھا کہ اگر چیف جسٹس نا ہوں تو بطور سینیر پیونی جج وہ کیوں کیس فکس نہیں کر سکتے، یہ سب اسلام آباد ہائیکورٹ میں 2023 میں شروع نہیں ہوا، وہاں چیزیں پہلے سے خراب تھیں۔

حامد خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ خطوط کو سامنے رکھیں تو آسانی سے سمجھ آتا ہے کہ جج باہر سے کیوں آئے، خطوط لکھنے والے ججز سارے حقائق سامنے لے آئے، چیزیں چھپانے سے مسائل بڑھتے ہیں تبھی ججز نے سب کچھ عوام کے سامنے رکھ دیا۔

جسٹس شاہد بلال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کو کتنا اختیار دیا گیا، عامر رحمٰن صاحب، آپ نے بھی اس حوالے سے عدالت کو آگا کرنا ہے۔

وکیل حامد خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حلف صرف فارمیلیٹی نہیں بلکہ آئینی ذمہ داری ہے، ججز مایوس ہیں اس لیے انہوں نے خط لکھ کر جو کچھ ان کے ساتھ ہوا وہ بتا دیا۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ حامد خان صاحب آپ کب تک خطوط پڑھیں گے؟ کچھ آئینی سوالات بتا دیں، ان خطوط کا فائدہ نہیں یہ سب پڑھے ہوئے ہیں، ہم ان خطوط کا کیا کریں گے؟ یہ لارجر بینچ میں زیر سماعت ہیں، ہم اس معاملے پر نہ کوئی حکم دے سکتے ہیں اور نہ ہی سن سکتے ہیں۔

حامد خان نے کہا کہ میں صرف حقائق سامنے رکھ رہا ہوں اور دلائل دینے کا میرا اپنا طریقہ کار ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ دلائل کے طریقے کار میں کوئی آئینی سوالات بھی لے آئیں جو متعلقہ ہوں۔

جسٹس شکیل احمد نے استفسار کیا کہ ان خطوط کو پڑھ کر آپ کیا بدنیتی ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ حامد خان نے کہا کہ میں کچھ حقائق عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئینی بینچ نے حقائق کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کرنا بلکہ قانونی سوالات پر فیصلہ کرنا ہے۔

حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ ججز خط کیس بدقسمتی کے ساتھ آج تک زیر التوا ہے، 26 ویں آئینی ترمیم کا کیس فکس نہیں ہوا، ہر کیس میں 26ویں آئینی ترمیم آڑے آتی ہے، اسی لیے ہمارا موقف رہا ہے کہ پہلے چھبیسویں آئینی ترمیم کیس سنا جانا چاہیے تھا۔

حامد خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ ججز نے اپنے اُس وقت کے چیف جسٹس عامر فاروق کو خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت سے آگاہ گیا، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کوئی ایکشن نہیں لیا تو ججز نے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھا، جب 6 بہادر ججز نے خط لکھا تو عدلیہ کو بطور ادارہ ایکشن لینا چاہئے تھا۔

انہوں نے کہا کہ اُس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کمیشن کے لیے اسی حکومت کو معاملہ بھیج دیا، جس پر ججز نے الزام لگایا تھا، یہ تو تصدق جیلانی صاحب کا شکریہ کہ کمیشن کی سربراہی سے معذرت کرلی، تاریخ میں پہلی مرتبہ ججز نے خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کو عیاں کیا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ ججز از خود نوٹس پر آپ تمام ہائی کورٹس کے جواب پڑھ کر یہی کہیں گے کہ ایجنسیوں نے مداخلت کی، بہتر ہے اس نکتے سے آگے بڑھیں اور آئینی نکات پر بات کریں۔

جسٹس شاہد بلال نے استفسار کیا کہ آپ کے خیال میں اسلام آباد ہائی کورٹ بار نے اس معاملے میں اپنی درخواست واپس کیوں لی؟ حامد خان نے جواب دیا کہ اگر ایجنسیاں ججز پر اثر انداز ہوسکتی ہیں تو ایک وکلاء کی بار پر کیوں نہیں؟

جسٹس شاہد بلال نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیےکہ میرے پاس اطلاع ہے کہ لاہور ہائی کورٹ بار اور لاہور بار کے صدور ایک سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں، اس سیاسی جماعت کے آپ سینیٹر ہیں، یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ بار کی سیاست اب قومی سیاست کی نذر ہوگئی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا آغاز آپ کی مخالف وکلا تنظیم نے کیا۔

بعد ازاں عدالت نے ججز ٹرانسفر سے متعلق کیس کی سماعت 19 مئی تک ملتوی کردی۔

کارٹون

کارٹون : 16 جون 2025
کارٹون : 15 جون 2025