اسلام آباد ہٹ اینڈ رن کیس: مدعی نے سپریم کورٹ کے جج کی بیٹی کیخلاف اپیل واپس لے لی
ہائی پروفائل ہٹ اینڈ رن کیس میں مرنے والے شہری کے والد نے 3 سال تک اپنے کیس کی وکالت کرنے کے بعد سپریم کورٹ کے جج کی بیٹی کو بری کرنے کے خلاف اپیل واپس لے لی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ (آئی ایچ سی) میں زیر التوا تھا، رفاقت علی جو کہ حادثے میں جاں بحق ہونے والی شکیل تنولی کے والد ہیں، انہوں نے 19 جون 2022 کو تھانہ کھنہ، اسلام آباد میں ایف آئی آر درج کروائی تھی۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے فروری 2025 میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس ملک شہزاد احمد خان کی بیٹی شانزے ملک کو بری کر دیا تھا۔
ایف آئی آر کے مطابق مبینہ طور پر جسٹس ملک شہزاد احمد خان کی بیٹی ایک ایس یو وی کار چلا رہی تھیں، جس نے سوہن پل کے قریب ایکسپریس وے پر رات کے 12 بجے 2 سیور فوڈز کے کارکنوں کو کچل دیا تھا، اور اس کیس کی تفتیش رک گئی تھی، مرنے والے شہری کے والد کا کہنا ہے کہ انہوں نے غلط فہمی کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کروائی تھی۔
عدالتی ریکارڈ میں دستیاب تفصیلات کے مطابق 8 جون کو شکیل تنولی اور اس کے ساتھی حسن علی کام کے بعد گھر واپس جا رہے تھے، جب انہیں مبینہ طور پر ایک خاتون ڈرائیور کی کار نے ٹکر مار دی تھی۔
جج کے خاندان نے حسن علی کے خاندان کے ساتھ تصفیہ کرنے کی رپورٹ پیش کی تھی۔
رفاقت علی نے عزم ظاہر کیا تھا کہ وہ قانونی طور پر اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے، تاہم رفاقت علی نے اب اپنا فیصلہ بدل لیا ہے اور حلف نامہ دیا ہے کہ اس نے شانزے ملک کو غلط فہمی کی بنیاد پر نامزد کیا تھا۔
انہوں نے بیان یاد ہے کہ مختلف ذرائع سے تصدیق کی اور پایا کہ شانزے ملک اور نہ ہی ان کے خاندان کا کوئی فرد اس واقعے میں شامل تھا، اس کے بعد میں کیس میں اپیل واپس لے رہا ہوں اور ملزمہ کے کیس سے بری ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
عدالتی ریکارڈ میں پیش کردہ تفصیلات کے مطابق، خاتون ڈرائیور گاڑی چھوڑ کر فرار ہو گئی تھی، پولیس نے اس گاڑی کو تحویل میں لیا، جو بعد میں جولائی 2024 میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک اہلکار کے سپرد کی گئی، اس ضمانت پر کہ ’وہ گاڑی کو عدالت میں بوقت ضرورت پیش کرے گا‘۔
جولائی 2024 میں، اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) علی ناصر رضوی نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو مطلع کیا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کی لگژری گاڑی جو ہٹ اور رن کیس میں شامل تھی، جس میں 2 افراد ہلاک ہوئے تھے، ایک عورت نے چلائی تھی اور یہ جج ملک شہزاد احمد کے زیر استعمال تھی، جنہیں اس واقعے کے بعد سپریم کورٹ میں ترقی دی گئی تھی۔
رواں سال فروری میں، جج کی بیٹی شانزے ملک کو ٹرائل کورٹ کے جج عدنان یوسف نے بری کردیا تھا، جنہوں نے شانزے ملک کی قانونی ٹیم کی طرف سے دائر کردہ بریت کی درخواست قبول کی۔
شانزے ملک کے وکیل صدیق اعوان نے عدالت دلائل دیے تھے کہ پولیس کوئی مؤثر ثبوت پیش نہیں کر سکی، استغاثہ کی کہانی پوری طرح ثانوی حقائق پر مبنی تھی۔
وکیل نے دلیل دی کہ مقدمہ حادثے کے 11 دن بعد درج کیا گیا، اور پولیس اس تاخیر کی کوئی وضاحت نہیں دے سکی، انہوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس ویڈیو شواہد پیش نہیں کر سکی، اور عدالت میں پیش کردہ تصاویر ان کی موکلہ کی واضح شناخت نہیں کرتی ہیں۔
وکیل نے یہ بھی نشاندہی کی کہ شانزے ملک کا نام فقط مدعی کے تاخیر سے بیان کے بعد جولائی 2024 میں شامل کیا گیا تھا۔
اس سے قبل رپورٹس آئی تھیں کہ شانزے ملک کو 2 سال سے زائد عرصے تک چھپنے کے بعد ضمانت قبل از گرفتاری دی گئی تھی۔
قانونی کارروائی میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 322 (لاپرواہ یا بے احتیاطی سے گاڑی چلانے) کو حذف کر دیا گیا، جو ایک ناقابل ضمانت جرم ہے، اور اس کی جگہ دفعہ 320 (بغیر ارادہ موت کا باعث بننا) کو شامل کیا گیا، جو کہ قابل ضمانت جرم ہے۔
مدعی مقدمہ رفاقت علی نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں بریت کے حکم چیلنج کیا تھا، تاہم حلف نامہ جمع کرانے کے بعد عدالت عالیہ کے جج محمد آصف نے بریت کے خلاف اپیل خارج کر دی۔