پلاننگ کمیشن کو ایف بی آر کیلئے 2 ارب 21 کروڑ مالیت کی 179 گاڑیاں خریدنے پر تحفظات

شائع May 19, 2025
ایف بی آر کے مطابق 2017 سے اب تک ٹیکس فائلرز کی تعداد میں 4 گنا اضافہ ہوا ہے
— فائل فوٹو
ایف بی آر کے مطابق 2017 سے اب تک ٹیکس فائلرز کی تعداد میں 4 گنا اضافہ ہوا ہے — فائل فوٹو

پلاننگ کمیشن نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے 41 ارب روپے کے ’ریونیو ریزز پروجیکٹ‘ کے تحت 15 بلٹ پروف وہیکلز سمیت 179 گاڑیوں کی خریداری پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور فنانس ڈویژن کی کفایت شعاری کی ہدایات کے پیش نظر 2 ارب 23 کروڑ 70 لاکھ روپے کے اخراجات پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس منصوبے کی فنڈنگ عالمی بینک کے 15 کروڑ ڈالر کے قرض سے کی جارہی ہے، جو 2.5 فیصد سالانہ شرح سود پر 30 سال کے لیے لیا گیا ہے۔

یہ منصوبہ وزیراعظم کے ایف بی آر کو جدید بنانے کے وژن کا اہم ستون سمجھا جا رہا ہے، اگرچہ اس منصوبے کے معاشی اشاریے مضبوط ہیں جن میں 42 سے 70 کا بینیفٹ، کاسٹ ریشو اور 130 فیصد سے 195 فیصد کے اندرونی منافع کی شرح (آئی آر آر ) شامل ہے، لیکن پلاننگ کمیشن نے اس کے نفاذ، خصوصاً گاڑیوں کی خریداری کے حوالے سے نگرانی میں کمی کی نشاندہی کی ہے۔

ڈیجیٹل انفورسمنٹ یونٹس کے لیے مختلف اقسام کی 179 گاڑیوں کی خریداری کے لیے 2 ارب 23 کروڑ 70 لاکھ روپے کی رقم تجویز کی گئی ہے، جن کی فی یونٹ لاگت ایک کروڑ 25 لاکھ روپے رکھی گئی ہے، لیکن گاڑیوں کی بابت معلومات یا کوئی وضاحت فراہم نہیں کی گئی۔

پلاننگ کمیشن نے مطالبہ کیا کہ ان اخراجات کا فنانس ڈویژن کی کفایت شعاری کی ہدایات کے تناظر میں از سر نو جائزہ لیا جائے۔

ایف بی آر نے اس خریداری کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ مختلف علاقوں میں ڈیجیٹل انفورسمنٹ اسٹیشنز کے قیام کے لیے آپریشنل ضروریات کے تحت ناگزیر ہے۔

تجویز کردہ گاڑیاں فیلڈ آپریشنز کے لیے درکار کم از کم ضروری خصوصیات کی حامل ہیں جن میں کوئی پرتعیش سہولیات شامل نہیں، ان کا انتخاب خالصتاً اسمگلنگ کے خلاف کارروائیوں کی عملی افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے، یہ منصوبہ جون 2027 تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔

منصوبے میں انفارمیشن کمیونیکیشن ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) کے آلات کی سرمایہ کاری کے نتیجے میں جو لاگت کی بچت متوقع ہے، (بشمول نئے ساز و سامان اور اس سے منسلک آپریشنل و مرمتی اخراجات) اس کی تخمینہ شدہ مالیت معمولی اعتبار سے 10 کروڑ ڈالر بتائی گئی ہے۔

ایف بی آر کے ڈیٹا سینٹر اور نیٹ ورک آلات میں کی جانے والی سرمایہ کاری کو ادارے کے آئی سی ٹی نظام کی ناکامی سے بچانے کے لیے ناگزیر قرار دیا گیا ہے۔

ایف بی آر نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر ایف بی آر نے جلد ان اپ گریڈز میں سرمایہ کاری نہ کی، تو اسے ڈیٹا سینٹرز کی دوبارہ تعمیر پر تقریباً 20 کروڑ ڈالر کے اخراجات برداشت کرنا ہوں گے۔

منصوبہ بندی کمیشن نے بتایا کہ سرحد پر کسٹمز کلیئرنس کے لیے درکار وقت کا ہدف اختتامی مدت تک 48 گھنٹے 30 منٹ مقرر کیا گیا ہے، جو کہ موجودہ 97 گھنٹے 30 منٹ کے مقابلے میں نمایاں کمی ہے۔

پلاننگ کمیشن کے مطابق، اس منصوبے کا بینیفٹ-کاسٹ ریشو 42 سے 70 کے درمیان ہے، جب کہ اس کی اندرونی شرحِ منافع (انٹرنل ریٹ آف ریٹرن) 130 فیصد سے 195 فیصد تک ہے۔

اس پروگرام کا ابتدائی خاکہ 2017 میں تیار کیا گیا تھا، اسے 17 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب حاصل کرنے کے مقصد کے تحت تشکیل دیا گیا تھا، لیکن یہ اب بھی تقریباً 10 فیصد پر موجود ہے، جو کہ ایشیا پیسیفک کے اوسط 19.3 فیصد سے کافی کم ہے۔

قومی اکاؤنٹس کے بیس ایئر کی تبدیلی سے پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب مزید کم ہو جائے گا۔

کچھ مطالعات میں مشاہدہ کیا گیا کہ ملک کی 64 فیصد معاشی سرگرمیاں غیر دستاویزی ہیں، جس کے باعث ٹیکس وصولی میں اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

منصوبہ بندی کمیشن نے مزید کہا کہ پاکستان کا ٹیکس نظام حد سے زیادہ ریگولیٹڈ ہے، جہاں بے شمار ٹیکسز کاروباری سرگرمیوں کو دبا دیتے ہیں۔

پلاننگ کمیشن کی سفارشات

پلاننگ کمیشن کے مطابق دستاویزات اور ٹیکس کی تعمیل کی لاگت ایک چھوٹے کاروبار کے لیے بھی تقریباً ڈھائی لاکھ روپے ہے، کمیشن نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں زیر گردش نقدی کی شرح 28 فیصد ہے، جب کہ بھارت میں یہ 18 فیصد اور بنگلہ دیش میں 17 فیصد ہے۔

منصوبہ بندی کمیشن نے ٹیکس کے طریقہ کار کو آسان بنانے، محصولات کی تعداد کو کم کرنے اور ٹیکس نظام کی ڈیجیٹائزیشن کو تیز کرنے کے لیے اصلاحات کا مطالبہ کیا، تاکہ اسے معیشت کی وسیع سرگرمیوں کے ساتھ مربوط کیا جا سکے۔

اس منصوبے میں موبائل ٹیکس سہولت کی خدمات، ٹیکس دہندگان کی تعمیل کو بہتر بنانے کے اقدامات، صوبائی ٹیکس حکام کے ساتھ ٹیکس ہم آہنگی پر تکنیکی مشاورت کے لیے ایک فورم کے قیام، عملے کی تربیت، بیک اپ بجلی کے آلات کی اپ گریڈیشن اور کنٹرول رومز اور نگرانی کے نظام کا قیام بھی شامل ہے۔

ایف بی آر نے حال ہی میں ان لینڈ ریونیو سروس (آئی آر ایس) اور پاکستان کسٹمز کے لیے اسٹریٹجک منصوبے اپنائے ہیں، تبدیلی کے منصوبے کے کلیدی اجزا میں ویلیو چینز کی ڈیجیٹل تبدیلی، ٹریکنگ ٹیکنالوجی کا تعارف، ڈیجیٹل تبدیلی کے لیے نفاذی معاونت اور ویلیو چین کے نفاذ کی معاونت شامل ہے۔

اس کے علاوہ 37 ڈیجیٹل نفاذی اسٹیشنز کو اسمگلنگ کے خلاف کارروائی کے لیے سخت اور نرم اقدامات سے لیس کیا جائے گا۔

ان 37 اسٹیشنز میں سے 24 دریائے سندھ، حب ندی اور ان کے قریبی علاقوں میں قائم کیے جائیں گے تاکہ یہ ایک حفاظتی دیوار کے طور پر کام کریں، جنہیں 3 موبائل نفاذی یونٹس کی معاونت حاصل ہوگی، اس کے علاوہ بلوچستان میں اسٹریٹجک مقامات پر 10 چیک پوسٹوں پر اسٹیشنز قائم کیے جائیں گے۔

کسٹمز ٹریکنگ سسٹم کو موجودہ ڈیٹا بیسز کے ساتھ مربوط کیا جائے گا، جو کہ ان افراد یا گاڑیوں کی شناخت اور نشاندہی کے لیے اہم ہوگا، جو اسمگل شدہ اشیا کی ترسیل میں ملوث ہیں جن پر ڈیوٹی اور ٹیکس ادا نہیں کیے جاتے۔

ایف بی آر کو توقع ہے کہ اس کی اصلاحاتی کوششوں سے مالی سال 29-2028 کے اختتام تک اضافی 81 ارب ڈالر کی آمدن حاصل ہوگی، اس منصوبے میں پرانے اور ناقابل استعمال آئی سی ٹی آلات کی جگہ نئے آلات کی فراہمی، کلاؤڈ انفرا اسٹرکچر، جدید سافٹ ویئر لائسنسز، ڈیٹا ویئرہاؤسنگ، بزنس انٹیلی جنس ٹولز اور فیلڈ دفاتر کے لیے مکمل ایل اے این اور وی او آئی پی کنیکٹیویٹی بھی شامل ہے۔

2 ارب 23 کروڑ 70 لاکھ روپے کی مختص رقم کے تحت، ایف بی آر اپنے آپریشنل عملے کے لیے 350 بلٹ پروف جیکٹس اور ہیلمٹس بھی خریدے گا۔

ٹیکس اتھارٹی نے اپنے وسائل میں اضافے کی ضرورت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکس فائلرز کی تعداد میں 4 گنا اضافہ ہوا ہے، جن کی تعداد 2017 میں 15 لاکھ تھی اور جون 2024 کے اختتام تک 60 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔

ایف بی آر نے ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور نادہندگان کی نشاندہی کے لیے جمع کیے جا رہے تھرڈ پارٹی ڈیٹا کے بڑھتے ہوئے حجم کو بھی بطور دلیل پیش کیا۔

کارٹون

کارٹون : 16 جون 2025
کارٹون : 15 جون 2025