ماہی گیری کا 12 سالہ معاہدہ طے، کیا برطانیہ یورپی یونین کی طرف واپس بڑھ رہا ہے؟
برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان مذاکرات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، جب کہ برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر لندن میں یورپی یونین کے رہنماؤں کے اجلاس کی میزبانی کر رہے ہیں۔
بی بی سی نیوز کی رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کی جانب سے برطانیہ کے سمندروں میں ماہی گیری کے حوالے سے 12 سالہ معاہدہ طے پا گیا ہے۔
برطانیہ-یورپی یونین کا یہ اجلاس تعلقات کو از سر نو ترتیب دینے کے لیے منعقد کیا گیا ہے، اجلاس کے موضوعات میں دفاع، تجارت، ماہی گیری، اور ایک ممکنہ یوتھ موبیلیٹی اسکیم شامل ہیں۔
برطانیہ 31 جنوری 2020 کو یورپی یونین سے الگ ہوگیا تھا، اس کے لیے بریگزٹ کی اصطلاح استعمال کی گئی تھی۔
کنزرویٹو پارٹی نے آج کے اجلاس کو ’ہتھیار ڈالنے کا اجلاس‘ قرار دیا ہے۔
یورپی یونین کے 2 سفارت کاروں کے مطابق برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان ماہی گیری کا نیا معاہدہ 2038 تک جاری رہے گا۔
ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ مزید تفصیلات نہیں بتاسکتے، لیکن دوسرے نے بتایا کہ یہ موجودہ شرائط کے تسلسل کے مترادف ہے۔
موجودہ مسودے میں لکھا ہے کہ ’ہم ان سیاسی معاہدوں کو نوٹ کرتے ہیں جن کے تحت مکمل باہمی رسائی کے ساتھ 30 جون 2038 تک برطانیہ کے سمندروں میں ماہی گیری کی اجازت دی گئی ہے، اور توانائی کے شعبے میں تعاون کو مسلسل جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
موجودہ شرائط اگلے سال ختم ہونے والی تھیں، برسلز کئی سال تک برطانوی سمندروں تک رسائی کا معاہدہ چاہتا تھا۔
بی بی سی نے 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ سے اس اہم معاملے پر تبصرہ لینے کی کوشش کی ہے۔
معاہدہ تنازع کا باعث بن سکتا ہے؟
یورپی یونین کی کشتیوں کو برطانوی سمندروں میں ماہی گیری کی اجازت کے حوالے سے ایک 12 سالہ معاہدہ طے پایا ہے، جو یقیناً ایک بڑے تنازع کا باعث بن سکتا ہے۔
حکومت یہ مؤقف اختیار کرے گی کہ اس نے یورپی یونین میں خوراک اور زرعی مصنوعات کی تجارت کے لیے بہتر حقوق حاصل کیے ہیں۔
دفاع اور سلامتی کا ایک معاہدہ اس ’ڈیل‘ کا مرکزی عنصر ہوگا جس کی تفصیلات چند گھنٹوں میں سامنے آجائیں گی۔
دونوں فریق اس بات پر زور دیں گے کہ باہمی تعاون کو گہرا کرنے کی مشترکہ خواہش موجود ہے۔
دیگر اہم عناصر اب بھی مزید مذاکرات کے تحت طے پائیں گے، جیسا کہ نوجوانوں کی آمد و رفت کی اسکیم کا تصور ہے۔
برطانوی شہریوں کیلئے یورپی ای گیٹس
آج ایک ایسا موضوع جس کے بارے میں مزید سننے کو مل سکتا ہے وہ ہوائی اڈوں پر سرحدی قطاریں (بارڈر کیو) ہیں۔
اتوار کو سنڈے وِد لورا کوئنسبرگ کے پروگرام میں، یورپی یونین سے تعلقات کے برطانوی وزیر نک تھامس سائمنڈز نے تصدیق کی کہ برطانیہ یہ کوشش کر رہا ہے کہ برطانوی پاسپورٹ رکھنے والوں کو یورپی یونین کے ای-گیٹس استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔
بریگزٹ کے بعد جب آزادانہ نقل و حرکت کا خاتمہ ہوا، تو یورپی ممالک کا سفر کرنے والے افراد کے لیے قوانین بدل گئے تھے، اب برطانوی پاسپورٹ ہولڈرز یورپی یونین کے بارڈر کراسنگ پر یورپی یونین کی لائنز استعمال نہیں کر سکتے۔
برطانوی شہریوں کو شینجن علاقے میں مختصر دوروں کے لیے ویزا کی ضرورت تو نہیں، لیکن ہر 180 دن میں صرف 90 دن قیام کی اجازت ہے۔
برطانیہ یورپی یونین کی طرف واپس بڑھ رہا ہے؟
بریگزٹ سے پہلے، برطانوی وزرائے اعظم سال میں چار یا اس سے زیادہ مرتبہ برسلز کا سفر کرتے تھے، تاکہ یورپی یونین کے اداروں اور اس کے 27 رکن ممالک کے سربراہان کے ساتھ اجلاسوں میں شرکت کر سکیں۔
یہ بات چیت اکثر رات گئے تک جاری رہتی تھی، لیکن بریگزٹ کے بعد یہ بڑے اجلاس ختم ہو گئے۔
اب برطانیہ میں لیبر پارٹی کی حکومت ہے جو گزشتہ سال ’یورپی شراکت داروں کے ساتھ بہتر اور پُرعزم تعلقات‘ کے منشور پر منتخب ہوئی تھی۔
لیبر حکومت یورپی یونین کے ساتھ نئی اور باقاعدہ بات چیت کا تصور پیش کر رہی ہے، پیر کا اجلاس اسی سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔
کیئر اسٹارمر یورپی یونین کے اعلیٰ ترین رہنماؤں کی میزبانی کر رہے ہیں تاکہ ایک نئی ’شراکت داری‘ کا آغاز کیا جا سکے۔
لندن میں یورپی یونین کے سفیر پیڈرو سرانو نے اسے جولائی 2024 کے (برطانوی) انتخابات کے بعد اعلیٰ ترین سطح پر بڑھتے ہوئے روابط کا نقطہ عروج قرار دیا ہے۔
لیکن یہ سب کچھ عملی طور پر کیا شکل اختیار کرے گا؟
کیا جو کچھ ہونے والا ہے وہ ’سرنڈر سمٹ‘ ہے، جیسا کہ کنزرویٹو پارٹی خبردار کر رہی ہے؟ یا ’گریٹ برٹش سیل آؤٹ‘ ہے، جو ریفارم یوکے کو خدشہ ہے کہ بریگزٹ کے کچھ حصوں کو ختم کر دے گا؟ یا یہ وہ بڑا موقع ہے جسے برطانیہ ضائع کر سکتا ہے، جیسا کہ لبرل ڈیموکریٹس کہتے ہیں؟
یا پھر یہ واقعی اس بات کی مثال ہو سکتی ہے کہ سر کیئر اسٹارمر کے الفاظ میں حقیقت پسندی نمائشی سیاست کو شکست دیتی ہے اور عملی طور پر ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں جو لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بناتے ہیں؟
سیکیورٹی معاہدے کے گرد سوالات
2020 کی وہ طویل ڈرامائی راتیں، جب اس وقت کے وزیرِاعظم بورس جانسن بریگزٹ پر مذاکرات کر رہے تھے، اس وقت سیکیورٹی اور دفاعی شراکت داری کے امکان پر بھی بات ہوئی تھی، لیکن اس وقت برطانیہ کی بنیادی ترجیح برسلز سے الگ ہونا تھا، اس لیے اس بارے میں کوئی معاہدہ نہیں ہوا، جو کچھ لوگوں کے نزدیک ایک قابلِ ذکر خلا تھا۔
اب ایک نیا برطانیہ-یورپی یونین سیکیورٹی معاہدہ کئی مہینوں سے زیرِ غور ہے، اور منصوبہ یہ ہے کہ یہ معاہدہ اُس سمجھوتے کا مرکز ہو، جو طے پانے والا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کاجا کالاس مذاکرات کی نگرانی کر رہی ہیں، ابتدائی بات چیت میں لنکاسٹر ہاؤس میں موجود تھیں، انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ہمارے تعلقات میں کچھ مشکلات رہی ہیں، لیکن دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اس شراکت داری کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
تاہم کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ برطانیہ کو یورپی یونین کے اس بڑھائے گئے ہاتھ کو تھامنا نہیں چاہیے۔
کنزرویٹو پارٹی کے ایلکس برگھارٹ نے اس ہفتے دارالعوام میں کہا تھا کہ ہماری دفاعی حکمت عملی کی بنیاد نیٹو ہے، ہم نہیں سمجھتے کہ نیٹو کے علاوہ کسی اور چیز کی ضرورت ہے۔
ریفارم یو کے، کے ڈپٹی لیڈر رچرڈ ٹائس کی اپنی رائے ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس میں بالکل بھی کوئی فائدہ نہیں ہے، ہم نہیں چاہتے کہ ہماری دفاعی پالیسی کسی ناکام، اوپر سے تھوپی گئی، بیوروکریٹک فوجی ڈھانچے سے باندھ دی جائے، ہمارا دفاع نیٹو کی طرف سے یقینی بنایا گیا ہے۔