کیا مسئلہ کشمیر چوتھی جنگ کی جانب بڑھ رہا ہے؟
انگریزی اخبار ڈان سے وابستہ رہنے والے سینئر صحافی استاد محترم نثار عثمانی کہا کرتے تھے بڑی خبر پر ڈیسک اور اسٹوڈیو سے تبصرہ تجزیہ نہیں کیا جاتا بلکہ اس پر لائیو رپورٹنگ ہونی چاہیے۔
پہلگام حملے کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا دھمکی آمیز بیان آیا جس کے ساتھ ہی بھارتی میڈیا نے جلتی پر تیل ڈالنے کا جو کام کیا، اس سے اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ بھارت جنگی محاذ ضرور کھولے گا اور اس کی پہل لائن آف کنٹرول پر حملے سے ہوگی۔ اسلام آباد میں ہونے سے فائدہ یہ ہوا کہ جب 7 مئی کی رات میں یہ خبر آئی کہ بھارت نے 7 فضائی حملے کیے ہیں تو صبح کے پہلے ہی پہر میں بہ راستہ مری تاریخی پل کوہالا پہنچ گیا جس کے نیچے دریائے جہلم دھاڑے مار رہا تھا۔
اچانک اتنی تیز بارش شروع ہوئی کہ شام 4 بجے اندھیرے کا سماں تھا۔ اپنے چینل کے لیے دریائے جہلم کے ساتھ ساتھ مظفرآباد پہنچا۔ مظفرآباد شہر کے قلب میں جہاں دریائے نیلم اور جہلم ملتے ہیں اور جسے دو میل کہتے ہیں، جنگ سے بے خوف کشمیریوں کے جوش و خروش کو دیکھ کر حیرت ہوئی۔
دو میل سے سری نگر 178 کلومیٹر دور ہے۔ ہٹیاں بالا، گھڑی دوپٹہ سے گزرتا ہوا جب میں چکوٹھی پہنچا تو شام کے سائے ڈھل رہے تھے۔ براہ راست خبر دینے ہی لگا تھا کہ ایک سیکیورٹی افسر نے تنبیہ کی کہ آپ میزائل کی رینج میں ہیں فوراً واپس جائیں۔
لائن آف کنٹرول سے واپسی پر سرسبز و شاداب پہاڑوں پر کچے پکے چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنے والے کشمیریوں کی جرأت اور ہمت کو سلام کیا تو ماضی کے سفر یاد آگئے۔
مشرف دور میں سری نگر سے حریت کانفرنس کے رہنماؤں کی آزاد کشمیر آمد، تقسیم شدہ خاندانوں کی بسوں سے آمد و رفت اور پھر 2004ء میں یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ میں صحافیوں کے اس گروپ میں شامل تھا جنہوں نے لاہور سے امرتسر اور پھر وہاں سے سری نگر میں 3 روزہ تاریخی قیام کیا۔ اس دورے میں، میں نے میر واعظ عمر فاروق، علی گیلانی، یٰسین ملک، عمر عبداللہ سمیت تمام سرکردہ رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں جبکہ اس دوران سری نگر یونیورسٹی کے پُرجوش طلبہ سے مکالمہ بھی ہوا۔ اس دورے کے بعد مجھے کافی حد تک مسئلہ کشمیر سے روشناسی ہوئی کیونکہ اس وقت تک ہماری معلومات ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ یا ’کشمیر شہ رگ پاکستان‘ تک محدود تھی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی زبان پھسل گئی کہ انہوں نے اسے ایک ہزار سال پرانا مسئلہ قرار دے دیا مگر تقریباً 100 سال سے لاکھوں کشمیری آگ و خون کے دریا سے گزرے ہیں۔
مظفرآباد کی پُرفضا پہاڑی پر شام کے سائے گہرے ہوئے تو سرد موسم میں یہ خبریں آنا شروع ہوگئی تھیں کہ سیز فائر یعنی جنگ بندی کے لیے اپنی کوششوں میں صدر ٹرمپ کامیاب ہوچکے ہیں، سو پہلی فرصت میں میں نے اپنے میزبان سے پوچھا، ’کیا مظفر آباد میں بُک شاپس ہیں؟‘ اس نے شرمندہ کردینے والی نظروں سے مجھے دیکھا اور کہا، ’صرف اسی چوک پر آمنے سامنے 5 کتابوں کی دکانیں ہیں‘۔
کچھ دنوں سے کشمیر کے حوالے سے جس کتاب کی تلاش تھی، وہ دکان میں داخل ہوتے ہی سامنے رکھی نظر آئی۔ اعتراف کرنے دیجیے کہ تین دہائی قبل شائع ہونے والی یہ خود نوشت سوانح اب بھی میلوں ٹھیلوں میں نظر آئی مگر اس طرف ہاتھ نہیں گیا کہ شیخ عبداللہ کے بارے میں ادھر ادھر سے جو پڑھا تھا، اس کے باعث کوئی خاص کشش اور خواہش نہ تھی کہ ان کی کتاب کو خرید کر پڑھا جائے۔
عمر کے اس پہر میں لگتا ہے کہ یہ ہماری چٹختی جہالت تھی اور ہے کہ جس کے سبب تاریخی و سیاسی کتاب کا چناؤ مصنف کو پسند یا ناپسند کرنے کے حوالے سے کرتے ہیں۔ تاخیر سے احساس زیاں ہوا تو اس کا ازالہ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ کم از کم برصغیر پاک و ہند کے نامور سیاستدانوں، جرنیلوں اور محققین کی جانب سے لکھی گئیں تحریروں بالخصوص آپ بیتیوں کو تفصیلاً پڑھا جائے۔ شیخ عبداللہ کی سوانح عمری علامہ اقبال کے شعر سے لیے جانے والے لفظ ’آتش چنار ’ سے منسوب ہے۔ وہ شعر کچھ یوں ہے؛
بھارت کے زیرِ تسلط کشمیر میں لوگ آج جن مسائل سے گزر رہے ہیں، اُس میں تقسیم ہند سے پہلے اور پھر بعد میں شیخ عبداللہ کا جوکردار رہا، اس میں وہ ہیرو سے زیادہ وِلن نظر آتے ہیں۔
سری نگر میں 1905ء میں پیدا ہونے والے شیخ عبداللہ جنہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے سائنس (فزکس) میں ماسٹرز کیا اور پھر 1930ء کے لگ بھگ تحریک آزادی کشمیر سے وابستہ ہوئے اور پھر پوری نصف صدی تک اقتدار میں ہوں یا جیل میں، اُن کا ڈنکا بجتا رہا۔ مگر بدقسمتی دیکھیے کہ آج نوجوان کشمیریوں کے لیے وہ ایک گمنام شخص کی حیثیت سے تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو کے بغیر جہاں بھارت کی آزادی کا تصور نہیں کیا جاسکتا، قائد اعظم محمد علی جناح جیسی عظیم الشان شخصیت کے بغیر قیام پاکستان، شاعر مشرق علامہ اقبال کا محض خواب ہی رہ جاتا، اسی طرح تحریک آزادی کشمیر کی تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے شیخ محمد عبداللہ کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
اکتوبر 1948ء میں سقوطِ سری نگر آخری دم پر تھا۔ پنڈی سے مظفر آباد اور اُس کے اطراف سے ہزاروں قبائلی فتوحات کے جھنڈے گاڑتے، سری نگر سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر تھے۔ مہاراجا کشمیر راجا ہری سنگھ، اپنے مال و اسباب اور خاندان کے ہمراہ جموں فرار ہوچکا تھا۔ پورے کشمیر میں تحریک آزادی کی آگ لگی ہوئی تھی۔ اگر اس وقت کشمیریوں کے ایک اہم لیڈر شیخ محمد عبداللہ دہلی میں بھارت سے کشمیر کے بارے میں ساز باز نہ کرتے تو شاید بھارت کسی صورت کشمیر پر قابض نہیں ہوسکتا تھا۔
خود شیخ عبداللہ نے اپنی کتاب ’آتش چنار‘ میں اس کا اعتراف کیا ہے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی منافقانہ پالیسی اپنی جگہ مگر دراصل یہ کشمیری پنڈت وزیر اعظم جواہر لال نہرو تھے جن کے لیے کشمیرکا حصول ایک رومانس بن گیا تھا۔ اور پھر خود شیخ عبداللہ اپنے دوست نہرو کی دوستی کی اسیری میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ جس کا خمیازہ انہیں برسوں قید بامشقت کی صورت میں بھگتنا پڑا۔

مگر کشمیری قوم جو 72 سال سے ایک آگ کے دریا سے گزر رہی ہے، اس کا سبب اس وقت کے شیرِ کشمیر شیخ محمد عبداللہ کی ہمالیہ سے بڑی وہ غلطی تھی جس میں انہوں نے کشمیریوں کو جواہر لال نہرو کے بھارت کے ہاتھوں فروخت کردیا۔
تقریباً 650 صفحات پر مشتمل کتاب کی منفرد بات یہ ہے کہ وہ شاعرِ مشرق علامہ اقبال سے بے حد متاثر تھے جیسا کہ خود اس کا ثبوت کتاب کا نام ہے جو علامہ اقبال کے شعر سے لیا گیا ہے۔ ہر آٹھویں اور دسویں صفحے پر اپنے بیانیات کو آگے بڑھانے اور زور دینے کے لیے علامہ اقبال کے اشعار کا سہارا لیا گیا ہے۔ خود علامہ اقبال سے ان کے آخری وقت میں شیخ عبداللہ کی تواتر سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں۔
شیخ عبداللہ کو اس بات پر داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے جواہر لال نہرو سے اپنی طویل دوستی اور وابستگی کے باوجود ان کے بارے میں یہ بھی لکھا کہ جواہر لال نہرو اپنی سحر انگیز شخصیت اور دانش کے باوجود اندر سے چانکیا تھے۔ مگر شیخ صاحب نے یہ بات اُس وقت کہی جب وہ ان کے ہاتھوں ڈسے گئے۔ اُن کے کاندھوں پر سوار ہو کر بھارتی حکمرانوں کا کشمیر پر تسلط کا آغاز ہوچکا تھا۔
31 دسمبر 1947ء کو جب مجاہدینِ کشمیر مظفر آباد سے سری نگر پر دستک دینے والے تھے تو یہ بھارت اور اس کے وزیراعظم جواہر لال نہرو تھے جو بھاگم بھاگ اقوام متحدہ پہنچ گئے۔ اُس وقت اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے سر ظفر اللہ خان تھے۔ شیخ عبداللہ خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ جس وفد کے وہ رکن تھے، وہ اقوام عالم کے دباؤ کے سبب اس بات پر مجبور ہوگیا کہ اقوام متحدہ جنگ بندی کے لیے انہیں محفوظ راستہ دے۔
حکومت ہند نے اقوام متحدہ میں جو خط لکھا، اُس میں واضح طور پر یہ تسلیم کیا تھا کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور اس کا فوری حل نکلنا چاہیے۔ شیخ عبداللہ کی ’آتشِ چنار‘ کے صفحہ 323 پر حکومت ہند کی عالمی ادارے کے نام پر یہ تحریر محفوظ ہے؛
’ریاست جموں و کشمیر کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے آزاد ہوں گے اور وہ فیصلہ جمہوری طریقہ کار رائے شماری یا استصواب (Plebiscite or referendum) سے کیا جائے گا جس کی غیر جانبداری کو یقینی بنانے کے لیے یہ اقدام بین الاقوامی نگرانی میں کیا جائے گا‘۔
شیخ عبداللہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستانی نمائندے سر ظفر اللہ خان نے بڑی ذہانت کا مظاہرہ کرکے کشمیر کو ایک وسیع مسئلے کا روپ دے دیا جبکہ بھارت اور پاکستان کی تقسیم کے پورے پُر آشوب پس منظر کو اس کے ساتھ منسلک کردیا۔
سر ظفراللہ کے ذکر سے سرسری نہیں گزرا جا سکتا۔ ایک خاص اقلیت سے تعلق رکھنے والے ذہین سفارت کار بانی پاکستان قائد اعظم کا انتخاب تھے۔ سر ظفراللہ خان کی ذہانت اور سفارت کاری کے جواہرلال نہرو بھی معترف تھے۔ بدقسمتی دیکھیے کہ سر ظفراللہ خان کو ڈاکٹر عبدالسلام کی طرح ہماری تاریخ کے صفحات سے نکال دیا گیا ہے۔
کشمیری پنڈت جواہر لال نہرو سے لے کر گجرات کے نریندر مودی نے جو کیا سو کیا مگر تقسیم ہند کے وقت کشمیری مجاہدین کی پیٹھ میں چھُرا شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے گھونپا۔
شیخ عبد اللہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ بھارت پر لازم تھا کہ وہ اپنی شکایت کا دائرہ کشمیر تک ہی محدود رکھتا لیکن وہ سر ظفر اللہ کے حقیقت پر مبنی اور مہارت سے پیش کیے گئے بیانیے میں اُلجھ کر رہ گیا اور یوں یہ معاملہ طول پکڑ گیا۔ شیخ عبداللہ کہتے ہیں، ’ہم چلے تو تھے مستغیث بن کر لیکن ایک ملزم کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑے کردیے گئے‘۔

ایک طویل عرصے بعد شیخ عبداللہ 1964ء میں پاکستان آئے تھے۔ جنرل ایوب خان سے ان کی ایک ملاقات ہو چکی تھی مگر تاریخ کا المیہ دیکھیے کہ اگلے ہی دن بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے انتقال کی خبر آتی ہے جس پر شیخ عبداللہ بھارت واپس لوٹ گئے۔ ان کے دیگر اعمال بھی ہیں مگر آج کے حکمرانوں کے لیے یہ کتنی سبق آموز بات ہے کہ قیام پاکستان کے صرف 5 ماہ بعد جب وطن عزیز چاروں جانب سے بحرانوں میں گھرا ہوا تھا مگر اس نے سفارتی محاذ پر اتنی بڑی کامیابی حاصل کی کہ بھارت سے الحاق پر دستخط کرنے والے شیخ محمد عبداللہ کو بھی یہ لکھنا پڑا کہ برطانیہ نے ہم سے بے وفائی کی۔ وہ لکھتے ہیں؛ ’ برطانیہ کی اس دیوانگی میں ایک پُرکاری (چالاکی) کی ادا مضمر تھی۔ وہ اگر پاکستان کا اس قدر حمایتی بن گیا تھا تو اُس کی ایک خالص تجارتی وجہ تھی۔ نپولین نے انگریزوں کو دکانداروں کی قوم قرار دیا تھا اور یہاں پر وہ پھر اپنی نسلی مزاج کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ مشرق وسطیٰ میں عرب ممالک کا ایک بلاک ابھر رہا تھا جن کے پاس تیل کی وافر دولت تھی۔ برطانیہ کا وزیر خارجہ پاکستان کو ایک مسلم ملک کی حیثیت سے عرب ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کے لیے ایک پُل کے طور پر استعمال کرنا چاہتا تھا اور اسی لیے برطانیہ کا نمائندہ بھارت دشمنی میں پیش پیش تھا۔’
شیخ محمد عبداللہ، جواہر لال نہرو کے بھارتی وزیر اعظم ہوتے ہوئے، اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ نوزائیدہ مملکتِ پاکستان کے اقوام متحدہ میں نمائندے کے ہاتھوں کشمیر کے مسئلے پر ہمیں منہ کی کھانی پڑی۔
5 اگست کو نریندر مودی نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ کرکے تحریک آزادی کشمیر میں ایک طویل عرصے بعد جو نئی روح پھونکی، اُس پر دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر مودی کا ’نمستے‘ کے ساتھ شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
اور اس وقت کشمیر کا محاذ اتنا گرم ہے کہ اس کی مثال کم از کم 72 برس میں نہیں ملتی۔ 1948ء، 1971ء کی جنگوں کا تاریخی پس منظر مختلف ہے۔ ممبئی، پلواما اور پہلگام کے بعد مسئلہ کشمیر بین الاقوامی سطح پر ایک بار پھر اجاگر ہوا ہے جبکہ امریکی صدر ٹرمپ نے سفارت کاری کے محاذ پر اس مسئلے کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔