بھارتی وفد بیرونِ ملک دوروں کے لیے تیار: ششی تھرور ایسا کیا کریں گے جو جے شنکر نہ کرسکے؟
مرحوم شاعر اور متعدد فلموں کے لیے گانے لکھنے والے کیفی اعظمی نے گیت نگاری کا ایک عجیب طریقہ بیان کیا جو وزیراعظم نریندر مودی کی خارجہ پالیسی ترتیب دینے کے طریقے سے کافی مماثلت رکھتا ہے۔
کیفی اعظمی نے بتایا کہ دیگر عظیم گیت نگاروں کی طرح انہیں بھی متعلقہ فلم کے موسیقار کی جانب سے ترتیب دی گئی دھن کے مطابق گانے کے بول لکھنے ہوتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے، ’یہ بالکل ویسا ہی ہے کہ جیسے قبر کے لیے گڑھا کھود لیا گیا ہو اور پھر اس کے سائز کے مطابق لاش تلاش کی جائے‘۔
بھارت کی خارجہ پالیسی دائیں بازو کے نظریات کے مطابق ترتیب دی جاتی ہے۔ تجربہ کار سفارتکاروں کو مہارت اور لچک سے ملکی مفادات کے لیے درست انتخاب کرنے کا اختیار دینے کے بجائے بھارتی خارجہ پالیسی مودی حکومت کے قوم پرست ایجنڈا کو زیادہ فروغ دیتی ہے۔
مثال کے طور پر قومی مفاد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ مودی کے غیر ملکی دوروں کے دوران بیرون ملک مقیم ہندتوا نواز بھارتیوں کا ہجوم کتنا بڑا ہوتا ہے یا جب سفارتکاری کا استعمال مودی کے امیر کاروباری دوستوں کی مدد کے لیے کیا جاتا ہے اور دیگر ممالک سے ان کی حمایت کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو یہ بھارت کے اثر و رسوخ کا غیر منصفانہ استعمال ہے۔ نتیجتاً بھارت غیر ملکی موقع پرستوں کے لیے فائدے کا سامان بن سکتا ہے۔
پاکستان کے ساتھ حالیہ کشیدگی میں یہی ہوا۔ اسرائیل جو بنیامن نیتن یاہو کی سرپرستی میں فاشسٹ ریاست بن چکا ہے، واحد ملک تھا جس نے حالیہ تنازع میں بھارت کی حمایت کا اعلان کیا یا پھر میں یہ کہوں کہ اسرائیل وہ واحد ملک تھا جس نے بھارت کو اتحادی سمجھ کر اس کے ساتھ کھڑے ہونے کو درست جانا؟ اب بھارتی حکومت اراکین پارلیمنٹ پر مشتمل وفد کو غیرملکی دوروں پر روانہ کرے گی کہ وہ بھارت کا نقطہ نظر عالمی ممالک کے سامنے رکھیں۔ کیا حالت واقعی اس نہج تک پہنچ چکی ہے؟
یہاں تک کہ سیکولر بھارتی فوج کو بھی مبینہ طور پر حکومت کی نظریاتی ترجیحات کے مطابق استعمال کیا جا رہا ہے۔ دفاعی تجزیہ کار پراوین ساہنی برسوں سے یہ بات کہہ رہے ہیں اور مودی سرکار سے کشمیر میں فوج کو دہشتگردوں سے لڑنے والی تنظیم میں تبدیل کرنے پر سوال اٹھا رہے ہیں جس نے اعلیٰ ٹیکنالوجی وار فیئر صلاحیتوں میں چین اور بھارت کے درمیان خلا کو مزید وسیع کیا ہے۔
ایک بار پھر ہندوتوا ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے سفارتی نتائج پر توجہ نہیں دی گئی، بالکل اسی طرح جیسے کہ حکومت نے بین الاقوامی ردعمل کی پروا کیے بغیر جموں و کشمیر کے سیاسی انتظام کو تبدیل کیا۔ اس اقدام کا مقصد ہندوتوا نظریاتی بنیاد کو خوش کرنا تھا لیکن اس نے چین کو ایک ایسے تنازع میں دھکیل دیا جو پہلے صرف بھارت اور پاکستان کا باہمی تنازع تھا۔
اندرا گاندھی اور ذوالفقار علی بھٹو نے سیاسی احتیاط سے کام لیتے ہوئے شملہ معاہدے کی صورت میں ایک بنیاد ڈالی تھی جوکہ ڈھے گئی اور ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیش کش کرنے کا موقع ملا۔ حالات میں ایسی تبدیلی آئی ہے کہ مودی کی خارجہ پالیسی کے مقاصد ان سے مؤثر انداز میں نمٹنے کے قابل نہیں۔
دائیں بازو کی نظریاتی ضروریات کو پورا کرنے میں مودی نے خود کو اور ایک ایسے ملک کو شرمندہ کیا جس نے 2020ء میں صدارتی انتخاب میں مسلسل دوسری بار کامیابی کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کی تھی، البتہ جو بائیڈن وہ انتخاب جیت گئے تھے۔ اب ٹرمپ ثالثی کی پیش کش کرکے ان کی مدد کررہے ہیں۔ وہ پاکستان اور بھارت دونوں کو امریکی دوستی کا برابر کا حق دار سمجھتے ہیں۔ ٹرمپ کی ایسی مدد بھارتی خارجہ پالیسی کے لیے توہین کے مترادف ہے۔
ایک پرانی فلم کا گیت ہے، ’نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم، نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے‘۔ مودی نے ٹرمپ کی امریکا کے ساتھ دوستی کو بڑھاوا دینے کو اپنا بنیادی مقصد بنا لیا جس نے بھارت کے ایشیا کی بڑھتی ہوئی دو قوتوں چین اور روس کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچایا۔ اس سے شاید کسی حد تک وضاحت ہوتی ہے کہ کیوں بھارتی حکومت ششی تھرور کی سربراہی میں وفد کو بیرونی دوروں پر بھیج رہی ہے لیکن پھر بھی یہ مکمل طور پر قابلِ فہم نہیں۔ ششی تھرور اپنی پیچیدہ انگریزی سے ایسا کیا کرسکتے ہیں کہ جو وزیر خارجہ ایس جے شنکر نہیں کرپائے؟
دوسری جانب مسلسل پاکستان پر الزامات لگانے کی اپنی روش پر غور کرنے کے بجائے بھارتیہ جنتا پارٹی بہار میں انتخابی ریلیوں میں مصروف ہے اور وہ نریندر مودی کو فاتح قرار دے رہی ہے حالانکہ کسی بھی ملک نے اسے بھارت کی جیت قرار نہیں دیا ہے۔ بین الاقوامی حکومتیں تو 7 مئی کے فضائی تصادم میں پاکستان کی جانب سے گرائے جانے والے بھارتی جہازوں کی تعداد گننے میں مصروف ہیں۔ وہ اس فضائی لڑائی کا قریب سے مشاہدہ کررہے ہیں تاکہ مستقبل میں وہ اپنی جنگی حکمت عملیوں کو ترتیب دے سکیں۔ بدقسمتی سے یہ گلوبل ساؤتھ کے ہی ممالک ہوتے ہیں تو عظیم طاقتوں کے لیے ٹیسٹ کے نمونے بن جاتے ہیں۔ تو آخر اس صورت حال کا متبادل کیا ہے؟
چونکہ نریندر مودی کسی پرانی بیل گاڑی کی طرح ہندوتوا کی قدامت پسندی کو گھسیٹ رہے ہیں لیکن کبھی نہ کبھی سیکیولر جمہوریت سے اس کا تصادم ضرور ہوگا جس کی تجویز مہاتما گاندھی اور جواہرلال نہرو نے دی تھی اور جس کے لیے سبھاش بوس اور بھگت سنگھ نے جان کی قربانی دی تھی۔
کثیر الثقافتی، سائنسی طور پر پُرجوش قوم نے بھارت کو کسی زمانے میں دنیا کے لیے قابلِ رشک بنا دیا تھا۔ ان میں سابق برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل بھی شامل تھے جن کا ماننا تھا کہ آزاد بھارت ناقابلِ تسخیر ہوگا۔ اسی بھارت کو فوری طور پر بحال کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہندوتوا کے ماتحت اس وقت ملک جس جانب گامزن ہے وہ بالکل متضاد سمت ہے۔
کیفی اعظمی کے گانوں کے برعکس ہندوتوا کو اپنے قدامت پسند نظریات کی ایک ایسی اجتماعی قبر کی ضرورت ہے کہ جس میں وہ تمام جمہوری ادارے ڈھل سکیں۔ تاہم دنیا بدل چکی ہے اور دنیا کے مختلف ممالک خواہ وہ اسرائیل ہو یا امریکا، وہاں کی دائیں بازو کی حکومتوں کو مزاحمت کا سامنا ہے۔ اندرون یا بیرونِ ملک اب ہندوتوا کو قومی مفاد کا متبادل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تو پھر بھارت کے قومی مفاد کے لیے موزوں خارجہ پالیسی کیا ہوگی؟
نریندر مودی کو اٹلانٹک یا پیسیفک سمندروں کے اُس پار ممالک سے دوستی بڑھانے پر توجہ دینے کے بجائے اپنے اردگرد توجہ دینا ہوگی اور ممالک کے ساتھ ڈیڈلاک کا شکار تعلقات کو بحال کرنا ہوگا۔ بھارت کو اپنے خطے میں ممالک کا احترام اور ان کی دوستی جیتنے کی ضرورت ہے۔ ان پر برتری کے نظریے کو ترک کرکے دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہوگا۔ چین اپنے ہمسایہ ممالک ویتنام اور جاپان کے ساتھ یہی کررہا ہے۔
بھارت کو اپنے جنگی عزائم دکھانے کے بجائے سب سے پہلے اپنے گھر میں معاملات سدھارنا ہوں گے۔ اور اگر بھارت کی فوجی کارروائیاں کسی دوسرے طاقتور ملک کے مفادات کو پورا کرتی ہیں تو شاید اسے کارروائی کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے۔
دوسرے الفاظ میں کہیں تو بھارت کو شاید اپنے خطے کے بڑے پلیٹ فارم سے شروعات کرنی چاہیے جو جنوبی ایشیائی ممالک کی جانب سے 1985ء میں ڈھاکا میں بنایا گیا تھا تاکہ دہشت گردی سمیت تمام مشترکہ مسائل پر ممالک آپس میں بات چیت کرسکیں۔ یہ 7 رکنی تعاون تنظیم سارک ہے جو افغانستان کی شمولیت کے بعد اب 8 اراکین پر مشتمل ہے۔
ابتدائی طور پر مودی نے اپنی تقریبِ حلف برداری میں سارک اراکین کے سربراہان کو مدعو کرکے اچھا قدم اٹھایا تھا لیکن پھر شاید وہ اس نظریے کے قائل ہوگئے کہ بھارت نے اپنے ہمسایہ ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
تاہم سچ تو یہ ہے کہ جس طرح پختہ زمین کے بغیر راکٹ کو خلا میں نہیں بھیجا جاسکتا اسی طرح کوئی بھی ملک اس وقت تک عروج حاصل نہیں کرسکتا کہ جب تک اندرونِ ملک اس کی بنیادیں مضبوط نہ ہوں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔