’امن پسند‘ ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل پر جارحیت روکنے کے لیے دباؤ ڈالنے میں ناکام کیوں ہیں؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے حالیہ سہ ملکی دورے کے دوران بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس میں بتایا گیا کہ انہوں نے اسرائیل کو دورے سے قبل یا مشرقِ وسطیٰ میں کیے گئے اپنے فیصلوں میں دیوار سے لگایا۔ اور ایسا کرنے کی ان کے پاس معقول وجہ تھی۔
ٹرمپ نے جو اقدامات کیے، انہوں نے یقینی طور پر اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کو پریشان کیا۔ واشنگٹن نے شام پر سے پابندیاں اٹھا لیں اور ٹرمپ نے ریاض میں شامی صدر احمد الشراع سے ملاقات بھی کی جس موقع پر انہوں نے ایک ایسے شخص کی تعریف کی جس کے سر پر امریکا نے انعام رکھا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کی بھی تعریف کی جوکہ اسرائیل کے ایک اور مخالف ہیں۔ انہی کے مشورے پر امریکی صدر نے شام پر سے پابندی اٹھائیں۔ دوسری جانب نیتن یاہو نے ٹرمپ پر زور دیا تھا کہ وہ پابندیاں ختم نہ کریں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے یمن میں حوثیوں کے ساتھ جنگ بندی بھی کی جس کے ساتھ ہی دونوں فریقین نے ایک دوسرے کے خلاف فوجی حملے روکنے پر اتفاق کیا۔ اس معاملے میں بھی اسرائیل کو نظر انداز کیا گیا۔ ٹرمپ نے امریکا اور حماس کے درمیان براہ راست مذاکرات کے نتیجے میں غزہ میں آخری امریکی یرغمالی کی رہائی کو بھی یقینی بنایا۔ لیکن تل ابیب کو سب سے زیادہ جس امر نے پریشان کیا وہ ڈونلڈ ٹرمپ کا ایران سے براہ راست جوہری مذاکرات کرنا ہے جس کی اسرائیل سختی سے مخالفت کرتا رہا ہے۔
یہ رپورٹس سامنے آرہی ہیں کہ امریکا کو ’نئی‘ انٹیلی جنسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے فوجی کارروائی کی تیاری کررہا ہے۔ اگر اسرائیل نتائج کی پروا کیے بغیر ایسا کرتا ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ کی سفارتی کوششوں اور نیتن یاہو کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچے گا بالخصوص اب کہ جب حال ہی میں ٹرمپ نے ٹیلی فونک گفتگو میں نیتن یاہو سے کہا ہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
فنانشل ٹائمز کے لیے لکھتے ہوئے کم گٹاس کہتی ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات ’اسرائیل کو حیرت میں مبتلا کررہے ہیں کہ وہ اسے معاہدوں سے الگ کررہے ہیں‘۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ نیتن یاہو کے ساتھ ٹرمپ کا صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے لیکن ’اسرائیل اور امریکا کے درمیان دہائیوں پرانا اتحاد قائم رہے گا‘۔ دیگر مبصرین نے اسرائیلی وزیر اعظم کو ٹرمپ کے دورے کے دوران محض ایک ’تماشائی‘ کے طور پر دیکھا کیونکہ امریکی صدر اسرائیل کے دشمنوں کے قریب ہوگئے ہیں۔
اس سب کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی سے روکنے میں ناکام ہیں یا وہ اسے روکنے کے لیے تیار نہیں ہیں حالانکہ وہ طویل عرصے سے تنازع کے خاتمے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اگرچہ وائٹ ہاؤس نے خبردار کیا تھا کہ بنیامن نیتن یاہو اگر جنگ جاری رکھتے ہیں تو اس میں تنہا ہوں گے۔ اسرائیل نے غزہ میں اپنی وحشیانہ کارروائیوں کو وسعت دی ہے اور انسانی امداد کی بندش کو جاری رکھا ہے۔
روزانہ فضائی حملوں میں فلسطینیوں کو شہید کیا جارہا ہے جبکہ نیتن یاہو نے ’حماس کو ہمیشہ کے لیے تباہ‘ کرنے کے لیے پورے غزہ پر کنٹرول حاصل کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اسرائیل کے آپریشن ’گیدیئن چیرٹس‘ (Gideon’s Chariots) کو انجام دینے کے لیے جنوبی اور شمالی غزہ میں اضافی فوجی دستے تعینات کیے گئے ہیں جن کا مقصد فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنا ہے۔ لاکھوں فلسطینیوں کو ایک بار پھر ان کی چھتوں سے جبراً محروم کیاجارہا ہے۔ فلسطینیوں کی بے دخلی ہمیشہ سے بنیامن نیتن یاہو کا مقصد رہا ہے۔
اس سب نے تباہ کُن صورت حال کو جنم دیا ہے جبکہ انسانی بحران کو سنگین تر بنادیا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں فلسطینی فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ اسرائیلی جارحیت اور انسانی امداد کی ناکہ بندی نے بین الاقوامی سطح پر اضطراب پیدا کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اس سنگین صورت حال کو ’ناقابلِ بیان، ظالمانہ اور غیر انسانی‘ قرار دیا ہے۔ امداد کی بندش ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا، غزہ کی ’پوری آبادی کو قحط کے خطرے کا سامنا ہے‘۔
حتیٰ کہ اسرائیل کے قریبی مغربی اتحادیوں نے بھی تل ابیب کے خلاف آواز اٹھائی ہیں۔ مشترکہ بیان میں فرانس، برطانیہ اور کینیڈا نے غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کی عسکری جارحیت کی مذمت کی اور دھمکی دی کہ اگر اسرائیل نے کارروائیاں اور امداد کی پابندیاں ختم نہیں کیں تو اس کے خلاف ’ٹھوس اقدامات‘ کیے جائیں گے جن میں پابندیاں لگائے جانے کا امکان بھی شامل ہے۔ یورپی یونین نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات پر نظرثانی کرے گا جبکہ اسپین جیسے ممالک نے عالمی برادری سے پابندیوں سمیت سخت اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
23 ممالک نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں اسرائیل سے غزہ میں امدادی سامان کے داخلے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا گیا اور متنبہ کیا گیا کہ لوگوں کو ’فاقہ کشی‘ کا سامنا ہے۔ بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے اسرائیل نے غزہ میں کچھ امداد سامان کی ترسیل کی اجازت دی لیکن عالمی برادری نے اس اقدام کو ناکافی قرار دیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ردعمل میں کہا، ’یہ اشتعال انگیز اور اخلاقی طور پر قابلِ مذمت ہے کہ نسل کشی کے دوران، بھوک اور ظلم کے تقریباً 80 دنوں کے بعد دنیا نے مکمل محاصرے کو تھوڑا سا کم کرنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالا جس نے خوراک، ادویات، ایندھن اور دیگر تمام اشیا کے داخلے کو مکمل بند کیا ہوا ہے‘۔
دوسری جانب دوحہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کی تجدید کی کوششیں کسی نتیجہ خیز سمت کی جانب جاتی نظر نہیں آرہیں۔ حالانکہ ٹرمپ انتظامیہ پیش رفت نہ ہونے پر اضطراب کا شکار ہے لیکن پھر بھی وہ اسرائیل کو امن پر آمادہ کرنے میں ناکام ہے۔ شاید یہ بھی ایک وجہ ہے کہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے رواں ماہ اسرائیل کا دورہ نہ کرنے کا فیصلہ لیا۔ اگرچہ اسرائیلی جارحیت کے باوجود بھی بات چیت جاری رہی لیکن نیتن یاہو نے معاہدے میں بہت کم دلچسپی دکھائی۔ انہوں نے مارچ میں یک طرفہ طور پر جنگ بندی معاہدے کو توڑا اور بار بار اعلان کیا کہ وہ تب تک جنگ ختم نہیں کریں گے کہ جب تک انہیں حماس کے خلاف ’مکمل فتح‘ حاصل نہیں ہوجاتی۔
ان حملوں میں غزہ نے زیادہ خونریزی، نقل مکانی اور تباہی کا سامنا کیا۔ غزہ تک امداد پہنچانے کا امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی منصوبہ بہت متنازعہ ہے۔ اس میں چند اہم امدادی مراکز کا قیام شامل ہے جہاں لوگوں کو مدد حاصل کرنے کے لیے طویل فاصلہ طے کرنا پڑے گا۔ ان مراکز کی حفاظت فوجی اور نجی مسلح سیکورٹی فورسز کریں گی۔
سوئٹزرلینڈ کی ایک کمپنی غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن، ان مراکز کا انتظام سنبھالے گی۔ اقوام متحدہ نے اس منصوبے کو مزید نقل مکانی کی ایک حکمت عملی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے کیونکہ یہ ایک جنگی جرم ہے۔ اقوام متحدہ کے اعلیٰ امدادی اہلکار نے یہ بھی کہا کہ اس منصوبے میں لوگوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے فاقہ کشی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اداروں نے اس منصوبے کا حصہ بننے سے انکار کردیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے امداد کی بندش کو عسکریت پسندی قرار دے کر اس کی مذمت کی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے پورے غزہ پر مستقل طور پر قبضہ کرنے کے لیے فوجی مہم شروع کرنے کے بعد، انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزیر خزانہ بیزالیل اسموترخ نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ان کا مقصد ’غزہ کی پٹی میں موجود ہر چیز کو تباہ کرنا ہے‘ اور آبادی کو ’جنگی علاقوں‘ سے باہر دھکیلنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ’آبادی پٹی کے جنوب میں پہنچ جائے گی، اور (پھر) صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے تحت کسی تیسرے ممالک میں چلے جائیں گے‘۔
نیتن یاہو نے کہا ہے کہ جب حماس تمام یرغمالیوں کو رہا کرے گا اور ٹرمپ کے غزہ سے باہر آبادی کو منتقل کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد ہوجائے گا تو وہ جنگ ختم کردیں گے۔
اب یہ واشنگٹن کی ذمہ داری ہے کہ وہ واضح کرے کہ آیا اسرائیل واقعی ٹرمپ کے منصوبے پر عمل پیرا ہے یا نہیں۔ یہ وضاحت ضروری ہے کیونکہ اگر ایسا نہیں ہے تو اس سے اسرائیل پر جارحیت روکنے کے لیے دباؤ پڑے گا۔ لیکن اگر یہ سچ ہے تو اس سے امریکی صدر کے امن پسند تشخص کو نقصان پہنچے گا جس کے فروغ کی وہ بھرپور کوشش کررہے ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔