آرٹیکل 175 اے کے تحت نئی تقرری ہوسکتی ہے، آئینی بینچ کے ججز ٹرانسفر کیس میں ریمارکس

شائع May 29, 2025
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 16 جون کو سماعت مکمل ہوئی تو مختصر فیصلہ دے دیں گے — فائل فوٹو: سپریم کورٹ
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 16 جون کو سماعت مکمل ہوئی تو مختصر فیصلہ دے دیں گے — فائل فوٹو: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں زیر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ ججز ٹرانسفر و سنیارٹی کیس میں درخواست گزار ججز کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین کے جواب الجواب دلائل مکمل نہ ہوسکے، عدالت نے کیس کی سماعت 16 جون تک ملتوی کر دی۔

ڈان نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججز کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جج کے تبادلے سے سیٹ خالی نہیں ہو سکتی، جج کے مستقل ٹرانسفر سے آرٹیکل 175 اے غیر مؤثر ہو جائے گا، ماضی میں کسی جج کے ایک سے دوسری ہائی کورٹ میں مستقل ٹرانسفر کی کوئی مثال نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے موجودہ ججز ٹرانسفرز کیس اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے مؤقف اپنایا کہ آرٹیکل 200 کے تحت صرف عبوری ٹرانسفر ہو سکتا ہے، مستقل تقرری صرف جوڈیشل کمیشن کر سکتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرٹیکل 175 اے کے تحت ججز کی نئی تقرری ہو سکتی ہے، نئی تقرری اور تبادلے کے معنی الگ الگ ہیں۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ جج کے تبادلے کے لیے بامعنی مشاورت ہونی چاہیے، بامعنی مشاورت کے بغیر تبادلے کا سارا عمل محض دکھاوا ہے، یہاں معلومات کو چھپایا گیا اور غلط معلومات دی گئیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے سامنے آئینی و قانونی نقطے کی تشریح کا معاملہ ہے، تبادلے کے معاملے میں 3 چیف جسٹسز شامل تھے، ہر چیز ایگزیکٹو کے ہاتھ میں نہیں تھی، تبادلے پر جج سے رضامندی بھی لی جاتی ہے۔

وکیل صلاح الدین نے کہا کہ سمری میں کہا گیا کہ پنجاب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں صرف ایک جج ہے، جب کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس وقت 3 جج پنجاب سے ہیں، یہ ججز کے ٹرانسفر کے عمل میں حقائق کی بدنیتی ہے، جسٹس محمد آصف کا تقرری کے 20 دن بعد ٹرانسفر کر دیا گیا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ تبادلے کا اختیار تو صدر پاکستان کا ہے، ججز کے ٹرانسفر کا عمل تو وزارت قانون نے شروع کیا۔

بیرسٹر صلاح الدین نے مؤقف اپنایا آرٹیکل 200 (1) میں ججز تبادلے کی میعاد نہیں لکھی گئی، میری معلومات کے مطابق تبادلے پر آئے ججز اضافی الاؤنسز لے رہے ہیں۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے اٹارنی جنرل نے ججز کے اضافی الاؤنس کی تردید کردی ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جج کی انٹری فرنٹ دروازے سے ہو یا سائیڈ والے دروازے سے حلف لینا ہوگا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ اگر ججز کا تبادلہ مستقل نہیں تو حلف کیوں اٹھانا پڑے گا؟

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ یہ ٹرانسفر ہونے والے جج کا عارضی حلف ہوگا، پاکستان میں ججز سنیارٹی کے جتنے بھی اصول ہیں وہ عدالتی فیصلوں سے لیے گئے ہیں، اس حوالے سے 3 عدالتی مثالیں موجود ہیں، جن میں کوئی کیس لا نہیں، ان عدالتی نظائر میں ماضی کی پریکٹس، سول سروس رولز سے رہنمائی اور شفافیت پر زور دیا گیا، سول سروس رولز میں لکھا ہے کہ ایک ہی دن میں 2 لوگوں کی تقرری ہوئی تو عمر کی بنیاد پر سنیارٹی ہوگی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ یہ اصول تو عدلیہ میں بھی لاگو ہوتا ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا جی بالکل ہوتا ہے مگر عدالتی فیصلوں کے علاوہ کہیں قانون یا آئین میں درج نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا ٹرانسفر ہوتے وقت جج اپنی سروس بک بھی ساتھ لائے گا؟ چاہے تبادلہ عارضی ہو یا مستقل، کیا وہ اپنی سروس بک ساتھ لائے گا؟

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا جی بالکل، وہ اپنی سروس سنیارٹی کے لیے نہیں بلکہ مراعات یا پنشن کے لیے ساتھ لائے گا، کیونکہ سنیارٹی کے تعین کے لیے جج ٹرانسفر ہو کر نیا حلف لے گا۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 16 جون تک ملتوی کردی، درخواست گزار ججز کے وکیل صلاح الدین آئندہ سماعت پر بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے اگر 16 جون کو سماعت مکمل ہوئی تو ججز سے مشاورت کے بعد مختصر فیصلہ دے دیں گے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے استدعا کی کہ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دیں۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ کل بینچ میں موجود کچھ ججز دستیاب نہیں ہیں، جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے کہا آج دن ایک بجے کے بعد سماعت دوبارہ رکھ لی جائے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آج سماعت مکمل نہیں ہو پائے گی، جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا جواب الجواب میں سوالات بھی آجاتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 12 جون 2025
کارٹون : 11 جون 2025