• KHI: Clear 17.4°C
  • LHR: Clear 12.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.6°C
  • KHI: Clear 17.4°C
  • LHR: Clear 12.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.6°C

غزہ: اسرائیلی فورسز کی امداد لینے کیلئے جمع ہونیوالے فلسطینیوں پر فائرنگ، 36 شہید، 120 زخمی

شائع June 1, 2025
جرمنی، فرانس اور برطانیہ جیسے اتحادی بھی اسرائیل کی مذمت کرنے لگے ہیں
—فوٹو: اسکرین گریب/الجزیرہ
جرمنی، فرانس اور برطانیہ جیسے اتحادی بھی اسرائیل کی مذمت کرنے لگے ہیں —فوٹو: اسکرین گریب/الجزیرہ

اسرائیلی افواج نے جنوبی غزہ میں ایک امریکی حمایت یافتہ امدادی مرکز پر جمع ہونے والے فلسطینیوں پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں کم از کم 36 افراد شہید اور 120 زخمی ہو گئے۔

قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق اسرائیلی فورسز نے جنوبی اور وسطی غزہ میں امریکی امدادی تقسیم کے مراکز پر جمع ہونے والے فلسطینیوں پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں رفح میں کم از کم 35 افراد اور نیٹرازیم کوریڈور کے قریب ایک شخص شہید ہوا۔

اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ کو اس وقت ’دنیا کا سب سے زیادہ بھوکا مقام‘ قرار دیا جا رہا ہے، اور یہ انسانی امداد کی راہ میں سب سے زیادہ رکاوٹیں کھڑی کی جانے والی مہم بن چکی ہے۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ رفح میں امدادی مرکز پر فائرنگ کے واقعے سے لاعلم ہے۔

اسرائیلی فوج نے ٹیلیگرام پر انگریزی میں جاری ایک بیان میں کہا کہ وہ فی الحال ان زخمیوں سے لاعلم ہیں، جو امداد کی تقسیم کے مقام پر اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے زخمی یا شہید ہوئے، واقعے کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق، اسرائیل کی غزہ پر جاری جنگ کے دوران اب تک کم از کم 54 ہزار 381 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 24 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

غزہ کی حکومت کے میڈیا دفتر نے بتایا ہے کہ شہدا کی تعداد 61 ہزار 700 سے تجاوز کر گئی ہے، ہزاروں افراد جو ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، انہیں مردہ تصور کیا جا رہا ہے۔

7 اکتوبر 2023 کے حماس کے حملوں میں اسرائیل میں تقریباً ایک ہزار 139 افراد مارے گئے تھے اور 200 سے زائد افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

9 بچوں کو کھونے والی لیڈی ڈاکٹر کے شوہر بھی شہید

اسرائیلی فضائی حملے میں زخمی ہونے والے ڈاکٹر حمدی النجار زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئے ہیں۔

النجار کئی دنوں تک انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں زیرِ علاج رہے، اس بمباری میں ان کے 9 بچے بھی شہید ہوئے تھے، اور 11 سالہ بیٹا اس حملے کا واحد زندہ بچ جانے والا فرد ہے۔

ان کی اہلیہ، علاالنجار، جو خود بھی ڈاکٹر ہیں، حملے سے چند گھنٹے قبل کام پر جانے کے لیے گھر سے نکلی تھیں۔

یاد رہے کہ 25 مئی کو غزہ میں اسرائیلی حملے میں خاتون ڈاکٹر کے 10 میں سے 9 بچے شہید، جب کہ ان کے شوہر اور ایک بیٹا زخمی ہوگیا تھا، حملے کے وقت ڈاکٹر علا النجار نصر ہسپتال میں فرائض کی انجام دہی میں مصروف تھیں۔

امریکا، اسرائیل کے امدادی مراکز ’موت کا جال‘

غزہ میں حکومت کے میڈیا دفتر نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ اسرائیل نے رفح میں ایک امریکی حمایت یافتہ امدادی مرکز پر حملہ کرکے کم از کم 22 افراد کو شہید اور 115 کو زخمی کر دیا ہے، اور خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ شہدا کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسے امدادی مقامات پر پچھلے ایک ہفتے کے دوران شہدا کی تعداد کم از کم 39 ہو گئی ہے، جب کہ زخمیوں کی تعداد 220 سے تجاوز کر گئی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ شہادتیں ’ان علاقوں کی حیثیت کو انسانی امداد کے مراکز کے بجائے ’موت کے جال‘ کے طور پر ظاہر کرتی ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ہم پوری دنیا کو تصدیق کے ساتھ بتاتے ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ امداد کا ایک منظم اور بدنیتی پر مبنی جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال ہے، جس کا مقصد بھوکے شہریوں کو بلیک میل کرنا اور انہیں جان بوجھ کر ایسے کھلے مقامات پر اکٹھا کرنا ہے جہاں انہیں نشانہ بنایا جا سکے۔

یہ مقامات قابض فوج کے زیر انتظام اور نگرانی میں ہیں، اور ان کی مالی معاونت اور سیاسی سرپرستی قابض حکومت اور امریکی انتظامیہ کر رہے ہیں، جو ان جرائم کی مکمل اخلاقی اور قانونی ذمہ دار ہیں۔

سعودی وزیر خارجہ اردن پہنچ گئے

سعودی وزیر خارجہ غزہ کے معاملے پر اجلاس کے لیے اردن پہنچ گئے

سعودی عرب کے وزیر خارجہ، شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود، غزہ کی پٹی پر جاری جنگ اور محاصرے کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے سلسلے میں ایک وزارتی اجلاس میں شرکت کے لیے اردن پہنچے ہیں۔

یہ اجلاس اس وقت ہو رہا ہے جب اسرائیلی حکام نے اس ہفتے کے آخر میں مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں عرب وزرائے خارجہ کے وفد کو جمع ہونے سے روک دیا تھا۔

قبل ازیں اطلاعات ملی تھیں کہ سعودی وزیر خارجہ نے اپنا مغربی کنارے کا دورہ ملتوی کردیا ہے۔

نیتن یاہو کو جنگ ختم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں

الجزیرہ کے مطابق اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے مشرقِ وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی، اسٹیو وٹکوف، کی پیش کردہ تجویز کو قبول کر لیا ہے۔

اس بیان میں حماس پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ اس تجویز کو مسترد کر رہی ہے، حالاں کہ فلسطینی گروپ نے کہا ہے کہ وہ اس پر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔

تاہم، حماس نے کچھ شرائط بھی رکھی ہیں جو ممکنہ طور پر جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی راہ ہموار کر سکتی ہیں۔

یہ ان کی ابتدائی شرائط میں شامل ہے، جب سے جنگ بندی کا معاہدہ مارچ میں اس وقت ٹوٹا جب اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر دوبارہ بمباری شروع کر دی تھی۔

یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ ان مذاکرات کے آغاز سے ہی اسرائیلی وزیرِ اعظم واضح کر چکے ہیں کہ وہ جنگ کے خاتمے میں دلچسپی نہیں رکھتے، اور ان کے کچھ سخت مؤقف ہیں جنہیں وہ غزہ پر اسرائیلی حملے کے اختتام کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔

ان میں حماس کو مکمل غیر مسلح بنانا اور یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے۔

اس کے علاوہ، ان شرائط میں سابق امریکی صدر ٹرمپ کا وہ منصوبہ بھی شامل ہے، جس میں فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی سے نکالنے کی بات کی گئی تھی، جس کی شدید مذمت کی گئی ہے اور اسے بڑے پیمانے پر نسلی تطہیر قرار دیا جا رہا ہے۔

آغاز ہی سے اسرائیلی فریق جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا، اور اب اسرائیلی وزیرِ اعظم حماس پر ان مذاکرات کی ناکامی کا الزام ڈال رہے ہیں۔

لیکن نیتن یاہو کو اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا ہے، جو انہیں اس بات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کہ اب تک کوئی معاہدہ کیوں نہیں ہو سکا۔

مغربی اتحادیوں کی نسل کشی پر اسرائیل کی مخالفت

غزہ میں جاری اسرائیلی نسل کشی کی جنگ کو 600 سے زائد دن گزرنے کے بعد، اسرائیل کے کچھ قریبی اتحادیوں نے اس کے اقدامات کی مذمت کرنا شروع کر دی ہے۔

عالمی بیانیے میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ، اسرائیل میں بھی نیتن یاہو حکومت کی جنگی حکمت عملی کے خلاف بڑھتی ہوئی مخالفت میڈیا کی کوریج میں جھلکنے لگی ہے، جس سے وہ اتفاق رائے ٹوٹنے لگا ہے جو 7 اکتوبر 2023 سے قائم تھا۔

اس حوالے سے جرمن چانسلر فریڈرک مرز کے علاوہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور برطانوی وزیراعظم سرکیئراسٹارمر نے نیتن یاہو کی حکومت کی جانب سے نسل کشی کی شدید مذمت کی ہے اور اسے ناقابل قبول قرار دیا ہے، اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مغرب کی خاموشی اس کی ساکھ ختم کر دے گی۔

کارٹون

کارٹون : 14 دسمبر 2025
کارٹون : 13 دسمبر 2025