غلط حکومتی پالیسیوں کے باعث بڑی فصلوں کی پیداوار میں 13.5 فیصد کی نمایاں کمی
منصوبہ بندی کمیشن نے تسلیم کیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر پالیسی فیصلوں اور حکومتی اقدامات کے نتیجے میں اس مالی سال کے دوران بڑی فصلوں کی پیداوار میں 13.5 فیصد کی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، جس کے باعث آئندہ سال خوراک کی درآمدات میں اضافہ ہو سکتا ہے اور قیمتی زرمبادلہ پر دباؤ پڑنے کا خدشہ ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق وفاقی بجٹ 26-2025 کے لیے تیار کیے گئے ورکنگ پیپر میں منصوبہ بندی کمیشن نے مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں مقررہ ہدف سے کم شرح نمو کی ذمہ داری بھی زرعی شعبے کی ناقص کارکردگی پر عائد کی ہے۔
کمیشن نے اعتراف کیا ہے کہ ’مالی سال 25-2024 کے لیے جی ڈی پی کی شرح نمو 2.7 فیصد رہی، جو 3.6 فیصد کے ہدف سے کم ہے اور اس کی بنیادی وجہ اہم اشیا پیدا کرنے والے شعبوں میں شدید سکڑاؤ ہے، جن میں اہم فصلوں کی پیداوار میں 13.5 فیصد کی کمی شامل ہے، اس کمی کی وجوہات میں ناموافق موسمی حالات، کم بارش، پیداواری لاگت میں اضافہ، اور پالیسی تبدیلیاں شامل ہیں‘۔
گزشتہ سال حکومت نے گندم کے لیے ایک پرکشش کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کا اعلان کیا تھا، تاہم بعد ازاں پنجاب حکومت نے کسانوں کو دی گئی اپنی حمایت واپس لے لی جس کے بعد کسانوں کو منڈی کے آڑھتیوں اور غیر منظم قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا، بعد میں وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کے تحت اجناس کی منڈی میں مداخلت ختم کرنے اور کم از کم امدادی قیمتیں نافذ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
منصوبہ بندی کمیشن نے نشاندہی کی کہ ان پالیسی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ کھاد پر طویل سبسڈی نے بھی کسانوں کی مشکلات میں اضافہ کیا، جس سے پیداواری لاگت اور زرعی مد میں چیلنجز مزید بڑھ گئے۔
منصوبہ بندی کمیشن نے تسلیم کیا ہے کہ مالی سال 25-2024 کے دوران فصلوں کے شعبے میں ملا جلا رجحان دیکھنے میں آیا، رپورٹ کے مطابق ’اہم فصلوں کی پیداوار میں 13.5 فیصد کمی ہوئی جبکہ دیگر فصلوں میں 4.8 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، کپاس کی پیداوار میں 30.7 فیصد، مکئی میں 15.4 فیصد، گنے کی پیداوار میں 3.9 فیصد، چاول میں 1.4 فیصد اور گندم کی پیداوار میں 8.9 فیصد کمی ہوئی‘۔
کمیشن نے کہا کہ ان نتائج کے مختلف ہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی، گنے اور چاول کی فی ایکڑ پیداوار میں کمی آئی، حالانکہ کاشت شدہ رقبے میں معمولی اضافہ ہوا، اس کی وجہ غیر یقینی موسمی حالات یا فصل کے دورانیے میں پیداواری مشکلات ہو سکتی ہیں۔
کمیشن نے خبردار کیا کہ یہ اعداد و شمار مجموعی طور پر پیداوار میں کمی اور بہتر پالیسی معاونت و موسمیاتی مزاحمت کی حامل زرعی تکنیکس کی ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی، کپاس کی جننگ کی صنعت میں بھی 19 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جو کہ گزشتہ سال 47.2 فیصد کی نمو کے برعکس ہے، ورکنگ پیپر میں کہا گیا ہے کہ ’اس کمی کی وجہ کپاس کی پیداوار میں کمی اور ملک میں جننگ فیکٹریوں کی بندش ہے‘۔
تاہم اس صورتحال نے وفاقی حکومت کو ملکی خالص اثاثوں میں توسیع کو محدود رکھنے میں مدد دی، جو مالی سال 25-2024 میں صرف 145.6 ارب روپے رہی، جبکہ گزشتہ سال یہ 1.588 کھرب روپے تھی۔
کمیشن کے مطابق ’یہ کمی اسٹیٹ بینک سے قرضوں کی واپسی، بجٹ خسارے میں کمی کے باعث شیڈیولڈ بینکوں سے کم قرضے لینے اور اجناس کی خریداری کے لیے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی سے ممکن ہوئی‘۔
یہ بنیادی طور پر اجناس کی مالی سرگرمیوں میں اصلاحات کا نتیجہ ہے جن کا مقصد اجناس سے جڑے قرضوں کے بوجھ کو کم کرنا تھا، ان اقدامات میں گندم کی خریداری کا از سر نو جائزہ، کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کا تدریجی خاتمہ، بروقت سبسڈی کی ادائیگی اور توانائی کے شعبے میں ہدفی سبسڈیز کی جانب منتقلی شامل ہیں۔
اس کے برعکس منصوبہ بندی کمیشن نے لائیو اسٹاک کے شعبے کی کارکردگی کو سراہا اور اس کا کریڈٹ حکومت کو دیا، کمیشن کے مطابق لائیو اسٹاک شعبے نے 4.7 فیصد کی شرح نمو برقرار رکھی، جو گزشتہ سال 4.4 فیصد تھی، یہ کارکردگی وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے ویکسی نیشن مہمات، بیماریوں پر قابو پانے اور نگرانی کے بہتر پروگراموں کا نتیجہ ہے۔
تاہم، اس شعبے کی کارکردگی کے باوجود اس کا مینوفیکچرنگ سیکٹر پر اثر زیادہ مثبت نہ ہو سکا، جو اس سال صرف 1.3 فیصد کی شرح سے بڑھا جبکہ پچھلے سال یہ شرح 3 فیصد تھی، اور ہدف 4.4 فیصد تھا، بڑی صنعتوں (لارج اسکیل مینوفیکچرنگ) نے 0.9 فیصد کی پچھلی معمولی نمو کے مقابلے میں اس سال 1.5 فیصد کا سکڑاؤ ظاہر کیا، جو صنعتی پیداوار میں مستقل کمزوری اور مانگ میں کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
ایل ایس ایم کے ایسے ذیلی شعبے جیسے خوراک، کیمیکلز، غیر دھاتی معدنی مصنوعات، لوہا و اسٹیل، برقی آلات، مشینری اور فرنیچر میں کمی دیکھی گئی، جس نے تمباکو، ٹیکسٹائل، ملبوسات، کوک و پیٹرولیم مصنوعات، گاڑیوں اور دیگر ٹرانسپورٹ آلات جیسے صارفین پر مبنی اور توانائی سے متعلق صنعتوں میں ہوئی جزوی نمو کو زائل کر دیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض شعبوں میں لچک برقرار ہے مگر مجموعی صنعتی فضا دبی ہوئی ہے۔













لائیو ٹی وی