قومی اقتصادی کونسل نے معاشی اہداف اور ترقیاتی پلان کی منظوری دیدی
قومی اقتصادی کونسل نے آئندہ مالی سال کے معاشی اہداف اور ترقیاتی پلان کی منظوری دے دی، جبکہ حکومت سندھ نے زرعی آمدن پر ٹیکس کے نفاذ کو مؤخر کرنے کا مطالبہ کر دیا۔
ڈان نیوز کے مطابق وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس کا اجلاس ہوا، جس میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار، وزیر منصوبہ بندی ڈاکٹر احسن اقبال، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ، وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے شرکت کی۔
اجلاس میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور، وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب سرفراز بگٹی اور قومی اقتصادی کونسل کے دیگر ارکان بھی شریک تھے۔
اجلاس میں قومی اقتصادی کونسل کے 6 نکاتی ایجنڈا کی اتفاق رائے سے منظوری دی گئی۔
اجلاس کو مالی سال 2024-2025 میں معیشت کی کارکردگی کے حوالے سے نظر ثانی شدہ اشاریے پیش کیے گئے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ 25-2024 میں 3 ہزار 483 ارب روپے سالانہ قومی ترقیاتی پروگرام پر خرچ کیے جا رہے ہیں، جس میں 1100 ارب روپے وفاق جبکہ 2 ہزار 383 ارب روپے صوبوں کا حصہ ہے۔
اجلاس نے 25-2024 کے لیے مجموعی قومی پیداوار کی 2.7 فیصد شرح نمو اور اگلے مالی سال کے لیے 4.2 فیصد شرح نمو کی منظوری دے دی۔
بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ جولائی 2024 تا اپریل 2025 ترسیلات زر میں 30.9 فیصد کا اضافہ ہوا اور کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس پہلی مرتبہ مثبت رہا، مالی سال 25-2024 میں مالیاتی خسارہ مزید کم ہو کر مجموعی قومی پیداوار کا 2.6 فیصد رہا جبکہ پرائمری بیلنس اضافے کے بعد مجموعی قومی پیداوار کا 3 فیصد رہا۔
شرکا کو بریفنگ دی گئی کہ حکومتی پالیسیوں اور اقدامات سے پالیسی ریٹ بتدریج کمی کے بعد 11 فیصد پر آیا جبکہ جولائی 2024 سے مئی 2025 تک نجی شعبے کی ترقی کے لیے دیے جانے والے قرضے بڑھ کر 681 ارب تک پہنچ گئے۔
مزید بتایا گیا کہ 25-2024 میں مجموعی قومی پیداوار کا حجم 114 ٹریلین روپے یا 411 ارب ڈالر ہو گا۔
اجلاس نے 26-2025 کے سالانہ ترقیاتی پلان کی بھی منظوری دے دی۔
اجلاس نے 26-2025 کے لیے 4 ہزار 224 ارب روپے کے قومی ترقیاتی بجٹ کی منظوری دی، جس میں ایک ہزار ارب روپے وفاقی جبکہ 2 ہزار 869 ارب روپے صوبائی ترقیاتی منصوبوں کے اخراجات کے لیے مختص ہوں گے۔
اجلاس نے مالی سال 26-2025 کے لیے میکرو اکنامک فریم ورک اور اہداف کی منظوری دے دی۔
قومی اقتصادی کونسل نے متعلقہ وزارتوں، صوبوں اور سرکاری اداروں کو ہدایت کی کہ مجوزہ سالانہ پلان 26-2025 کے اہداف کے حصول کے لئے وزارت منصوبہ بندی کے ساتھ مل کر کام کریں۔
ان ترقیاتی منصوبوں میں صحت، تعلیم، انفرا سٹرکچر، واٹر سیکٹر، اور ہاؤسنگ کے شعبوں کو ترجیح دی جائے گی۔
اجلاس نے 13ویں پانچ سالہ منصوبے (2029-2024) کی منظوری دی جبکہ قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں اڑان پاکستان فریم ورک کی بھی منظوری دی گئی۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ 13 واں پانچ سالہ منصوبہ اور اڑان پاکستان باہمی طور پر ہم آہنگ ہیں، اجلاس کو سالانہ قومی ترقیاتی پروگرام کے منصوبوں کی تھرڈ پارٹی مانیٹرنگ رپورٹ بھی پیش کی۔
وزیر اعظم نے قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس کے تمام نکات کی اتفاق رائے سے منظوری پر شرکا کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ قومی امور پر اسی طرح اتفاق رائے پاکستان کے روشن مستقبل کی ضامن ہے۔
اجلاس میں گفتگو کے دوران وزیراعظم نے شرکا کو 10 مئی کے معرکہ حق میں پاکستان کی تاریخ ساز فتح پر مبارکباد پیش کی۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاک افواج کی پیشہ ورانہ مہارت اور دلیری کی بدولت معرکہ حق میں اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو فتح سے نوازا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کا پاکستان کے خلاف حالیہ بیانیہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے جس سے خطے میں امن و سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں جب کہ ہم معرکہ حق کے بعد آبی وسائل کے تحفظ کی جد وجہد میں بھی انشااللہ بھارت کو شکست دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام ملکی سالمیت کے تحفظ کے لیے بھارت کے خلاف مکمل طور پر یکجا ہے، بھارت کی پاکستان کو آبی وسائل سے محروم کرنے کی دھمکیاں نا قابل قبول ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ تمام وزرا اعلیٰ کے ساتھ خصوصی اجلاس میں بھارتی جارحیت کے تناظر میں پاکستان کے آبی وسائل کے تحفظ کے لیے مضبوط حکمت عملی پر مشاورت کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاق اور صوبے مل کر پاکستان کے آبی وسائل کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوں گے، ملک میں حالیہ معاشی استحکام وفاق اور صوبوں کی مشترکہ کاوشوں کی بدولت ممکن ہوا، ملک معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
انہوں نے کہا کہ زرعی شعبہ ملکی زر مبادلہ میں اضافے اور شرح نمو میں اضافے کے لیے مرکزی کردار ادا کرتا ہے، زرعی پیداوار میں بتدریج اضافے کے لیے حکمت عملی تشکیل دی جا رہی ہے۔
اس کے علاوہ، قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں سندھ نے یکم جولائی سے عائد ہونے والے زرعی ٹیکس کو مؤخر کرنے اور ترقیاتی بجٹ بڑھانے کا مطالبہ کیا، اجلاس میں موقف اپنایا گیا کہ زرعی آمدن پر ٹیکس لگانے سے نظام متاثر ہوسکتا ہے۔
تاہم، وزارت خزانہ کی ٹیم نے واضح کیا ہے کہ زرعی آمدن پر ٹیکس کا فیصلہ عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ معاہدے کی وجہ سے فیصلہ واپس نہیں ہوسکتا اور یکم جولائی سے چاروں صوبوں میں زرعی آمدن پر ٹیکس لاگو ہوگا۔













لائیو ٹی وی