بجٹ: پاکستان کی پُراعتماد حکومت اور ’خوشحالی‘ اور ’ریلیف‘ کے منتظر عوام
جنگ ختم ہوچکی ہے لیکن برصغیر میں بات چیت ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں جو نہ صرف جوہری ہتھیاروں سے لیس دو ممالک کے درمیان جاری ہے بلکہ دونوں ممالک مغرب سے بھی بات چیت میں مصروف ہیں۔
دونوں فریقین نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ مغرب کو باور کروانے کا وقت ہے کہ وہ حقیقی مظلوم ہیں۔ یہاں تک کہ اگر اقوامِ عالم (اور امریکا) مکمل طور پر قائل نہ بھی ہوں تو اصل مقصد اپنے گھر میں لوگوں کو متاثر کرنا ہے اور یہ ظاہر کرنا کہ ان کے رہنما سخت محنت کر رہے ہیں، اچھی انگریزی بول رہے ہیں اور ممکنہ جوہری تصادم کے خدشات کو پُرسکون انداز میں سنبھال رہے ہیں۔
لیکن پھر آخر میں، اصل کھیل تو پاکستان اور بھارت کے عوام کو یہ یقین دلانا ہے کہ دنیا ان کے مؤقف کے ساتھ کھڑی ہے حالانکہ ضروری نہیں کہ ایسا واقعی ہو۔ عوام یقین کرے یا نہ کرے، دونوں ممالک کے وزرائے اعظم اپنی فتح پر پُراعتماد نظر آتے ہیں۔
وزیر اعظم اس قدر پُرجوش ہیں کہ وہ نہ صرف اپنی کابینہ بلکہ اسلام آباد میں سفارتی تقریبات میں بھی تقاریر کر رہے ہیں۔ جو لوگ سن رہے ہیں، انہیں نہ صرف تنازعات کی تفصیلات، اندرون ملک اور ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبہ سازوں کے بارے میں نہیں بتایا گیا بلکہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے 1971ء کا بدلہ لے لیا ہے یعنی 6 جنگی طیارے اور آدھا ملک، ہم پلہ ہیں۔
ڈر ہے کہ وہ ایک ایسے چچا بن رہے ہیں جنہیں 40 سال قبل ان کے شوقین دوست شکار پر زبردستی لے گئے تھے اور تب سے لے کر اب تک خاندان کی ہر شادی اور عید کے اجتماع میں وہ یہی کہانی سناتے آرہے ہیں۔ ان کے کابینہ وزرا میں بھی اسی طرح کا جوش پایا جارہا ہے۔
وزیر خارجہ بھی تنازعے پر ایک سے زائد پریس کانفرنس کرچکے ہیں جبکہ وزیر دفاع خارجہ پالیسی کے ایسے فیصلوں کا اعلان کررہے ہیں جن پر حکومت نے اتفاقِ رائے بھی نہیں کیا۔ یہ بالکل ایک ایسی خاندانی شادی کی طرح ہے جہاں ہر کوئی اس بات پر غور کر رہا ہے کہ مہمانوں کو کون سا کھانا پیش کیا جائے گا، سوائے اس شخص کے جو اس کھانے کی ادائیگی کرے گا۔
جو لوگ حکومت یا میڈیا کے امور میں بہت زیادہ شامل نہیں ہیں، وہ خارجہ پالیسی کے بارے میں کسی بھی بات سے گریز کررہے ہیں لیکن وہ یہ کہتے رہتے ہیں کہ حکومت اچانک کتنی مقبول ہوگئی ہے۔ بہت سارے دعوے ہیں کہ حالیہ ’جنگ‘ نے حکومت کو زیادہ مقبول بنایا ہے۔ لیکن چونکہ جذبات بہت زیادہ ہیں اور ہر چیز کو قریب سے دیکھا جا رہا ہے، اس لیے کوئی بھی سخت سوالات کرنے کی ہمت نہیں کررہا کہ بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ میں حکومتی حمایت میں یہ اضافہ کب اور کیسے ہوا۔ یہ سوالات پوچھنا احمقانہ یا غیر محب وطن سمجھا جائے گا بالخصوص ’جنگ‘ کے بعد جو حقیقت میں اب بھی ختم نہیں ہوئی ہے۔
پنجاب میں ’سب اچھا ہے‘ کیونکہ فوج اور حکومت نے بھارتی حملے کو ناکام بنا دیا ہے۔ اگر کسی کو اس پر شک ہے تو وہ ثبوت کے طور پر سیالکوٹ کے حالیہ ضمنی الیکشن کے نتائج دیکھ سکتے ہیں۔ صرف غیرمحب وطن گروپ ہی یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ یہ انتخاب اب بھی کیوں غیر متعلقہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور کامیاب و مقبول مسلم لیگ (ن) کے درمیان مقابلہ تھا کیونکہ صوبے کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) تو اپنی حکومت، پولیس، انتظامیہ اور انتہائی منصفانہ اور غیرجانبدار الیکشن کمیشن کے باوجود جیت گئی ہے۔
لیکن یہ حیران کُن ہے کہ پردے کے پیچھے مصروفِ عمل نواز شریف جو سفارت کاری سے لے کر ترقی کے بڑے فیصلوں تک ہر چیز کے ماسٹر مائنڈ ہیں، جشن ختم ہونے سے قبل ہی لندن ایون فیلڈ روانہ ہوگئے۔ حالانکہ انہوں نے فعال سیاست میں واپس آنے کا متعدد بار وعدہ کیا تھا، بالکل اسی طرح جیسے حکومتیں معیشت ’ترقی کی راہ پر گامزن ہے‘ کے دعوے اکثر کرتی نظر آتی ہیں۔ اس لیے اب لوگ ان کی سیاسی واپسی اور ملک میں حقیقی ترقی دونوں کے منتظر ہیں۔ اس کے علاوہ لندن سے آنے والی ویڈیوز سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اب بھی وہاں مردوں کے عشائیے کے اجتماعات کی میزبانی کررہی ہے۔
لیکن یہ صرف ایک پارٹی نہیں ہے جو اپنے پرانے طرزِعمل کو دہرا رہی ہے۔ پی ٹی آئی بھی اسی پرانی اندرونی کشمکش، احتجاج اور بے امنی سے نمٹ رہی ہے۔ عمران خان جو ایک سے زائد بار کوشش کرچکے ہیں کہ ان کے وزیراعلیٰ اسلام آباد کی جانب پیش قدمی کریں، اب جیل سے اس پیش قدمی کی قیادت کرنے کا فیصلہ اور منصوبہ بندی کرچکے ہیں۔ اگر احتجاج کے دوران ان کی ٹیم کو ان سے ملنے کی اجازت نہ دی جائے تو کیا ہوگا؟ اسے ایک ’احمقانہ‘ سوال سمجھا جاتا ہے۔ کوئی بھی سوال جو بیانیے کو چیلنج کرتا ہے، اگر غیر محب وطن نہیں تو احمقانہ ضرور ہے۔
لیکن کہیں پر کوئی اب بھی پی ٹی آئی کو خوفزدہ کرنا چاہتا ہے، اسی لیے یہ باتیں ’لیک‘ ہورہی ہیں کہ فیض حمید کا مقدمہ ختم ہونے والا ہے۔ درحقیقت یہ لیکس کسی کو مطلع کرنے سے زیادہ پیغام بھیجنے کے بارے میں ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے حکومت اپنی کرپٹو پالیسی کی ’کامیابی‘ کے بارے میں بات کرتی ہے۔ یہ سب مختلف لوگوں کو مختلف پیغامات بھیجنے کے حوالے سے ہے۔
لیکن اب بات طاقتور لوگوں کی جانب سے پیغام دیے جانے تک محدود نہیں۔ اسلام آباد بار بھی 27ویں آئینی ترمیم کا خیرمقدم کرتے ہوئے میدان میں آچکی ہے جسے حکومت نے سرکاری طور پر تسلیم بھی نہیں کیا ہے۔ لیکن یہ خوشنودی حاصل کرنے کی بے تابی کا نتیجہ ہے کہ اسلام آباد بار چہ مگوئیوں کو تسلیم کررہا ہے۔
عام لوگ جو اندرونی دائرے سے بہت دور ہیں، وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ ترمیم اصل میں کیا کرے گی۔ کیا یہ صرف چند پریشان کرنے والے ججز (اگر کسی کے پاس اب بھی اختیار باقی ہے تو) کو نشانہ بنائے گا یا اس سے زیادہ سنگین تبدیلیاں آئیں گی؟ واقعی کوئی نہیں جانتا، اس لیے لوگ حقیقی سوالات پوچھنے کے بجائے صرف گپ شپ کرنے میں مصروف ہیں۔
وہ لوگ جو ’جانتے ہیں‘ کہتے ہیں کہ آئینی بینچ (اپنی تمام حکمت اور قانونی اختیار کے ساتھ) کی جانب سے حکمران جماعتوں کو مخصوص نشستیں واپس دینے کے بعد ہی ترمیم سامنے آئے گی۔
لیکن اگر پارلیمنٹ میں اپنی نشستوں کی تعداد بڑھانا اتنا ہی آسان ہے تو وزیر داخلہ کی مولانا سے ملاقات ناقابلِ فہم ہے۔ حالانکہ ایسا لگتا ہے کہ ان ملاقاتوں کے درمیان جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جے یو آئی-ف) کا انقلابی جوش دم توڑ گیا ہے۔ مولانا اب یہاں اور وہاں گرج نہیں رہے ہیں یا شاید ماحول پہلے ہی گرم ہے اور وہ درجہ حرارت میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہتے۔
کم از کم بجٹ کے سامنے آنے تک، اقتدار کے ایوانوں میں براجمان لوگوں کے لیے حالات ٹھیک ہو رہے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حکومت پُراعتماد ہے جبکہ عوام، اس ’خوشحالی‘ اور ’ریلیف‘ کے لیے کمر باندھ رہے ہیں جو اس ہفتے ہماری منتظر ہوگی۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔