’وہی پرانا بجٹ ڈراما، یہ سال اہم موڑ ثابت ہوسکتا تھا لیکن کچھ نہیں بدلا‘
ہم اس وقت مالیاتی بدحالی کے بدترین مراحل میں ہیں جس کی وجہ سے ریاست مالیاتی اور معاشی عدم استحکام کے دلدل میں زیادہ گہرائی میں دھنس رہی ہے۔ اس تلخ حقیقت پر فریب کا پردہ ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
اب کئی سالوں سے ہم وہی مانوس اقدام کو ایک رسم کی طرح دہرا رہے ہیں کہ جہاں بجٹ کا اعلان نیک نیتی، بامعنی بیان بازی اور ریاست کی مجبوریوں کے بارے میں واضح یاد دہانیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی صرف ایک چیز جو تبدیل ہوتی ہے، وہ ہے ان لوگوں پر بوجھ میں اضافہ جو رجسٹرڈ اور قوانین کی تعمیل کرنے والے ٹیکس دہندگان ہیں۔
منگل کو جس بجٹ کا اعلان کیا گیا وہ بھی اسی پرانے طرز پر ہے۔ یہی وہ سال تھا کہ جب اسے کچھ معنی خیز بنانے کا بڑا موقع تھا کیونکہ شاذ و نادر ہی کسی حکومت کے لیے دور رس تبدیلی لانے کے لیے حالات اتنے زیادہ سازگار ہوئے ہوں۔ طاقتور اسٹیلشمنٹ ان کے پیچھے کھڑی ہے۔ پارلیمنٹ میں حقیقی اپوزیشن نام کی کوئی شے نہیں۔ معیشت میں استحکام آیا ہے۔ مہنگائی کا بےقابو جن کسی حد تک قابو میں آیا ہے۔ تیزی سے بڑھتے ہوئے مالیاتی اور بیرونی شعبے کے خسارے کو یا تو سرپلسز میں تبدیل کردیا گیا ہے یا کم از کم حدود میں لایا گیا ہے۔ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام آیا ہے۔
اگرچہ اس مقام تک پہنچنے کے لیے کافی جدوجہد کرنا پڑی لیکن اصل سوال یہ ہے کہ حکومت مشکل سے ہاتھ آنے والے اس قیمتی موقع کے ساتھ کیا کر رہی ہے؟
ہمارے پاس جواب ہے۔ حالیہ بجٹ میں ایک بھی اصلاحاتی اقدام شامل نہیں۔ جبکہ اصلاحاتی سمت کی جانب کسی بھی تزویراتی تبدیلی کا اشارہ ہی نہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ بہت سی مصنوعات پر کسٹم ڈیوٹی کم کرکے برآمدات میں اضافہ کرنا چاہتی ہے لیکن ایسا کوئی برآمد کنندہ تلاش کرنا مشکل ہے جو اس تجویز کا خواہشمند ہو۔
بجٹ میں جو سب سے اہم شعبہ نظر آتا ہے وہ ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کے لیے بنائے گئے اقدامات ہیں لیکن اس کے باوجود بجٹ میں زیادہ تر آن لائن مارکیٹس، آمدنیوں اور ڈیجیٹل معیشت کی لین دین کو ٹیکس دھارے میں لانے اور تعمیل سے انکار کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے ٹیکس کمشنرز کے اختیارات کو بڑھانے کے لیے بنائے گئے اقدامات شامل ہیں۔
محصولات کے حصول کے لیے چند اقدامات تو تشویشناک ہیں۔ گزشتہ سال حکومت نے اسٹیشنری اور بچوں کے لیے اسکول کے دیگر سامان پر ٹیکس لاگو کیا تھا۔ اس سال انہوں نے اچانک ٹیکس چھوٹ کو واپس لے کر اساتذہ پر ٹیکس کا ایک بم پھینکا ہے جسے انہوں نے چند دن قبل ہی برقرار رکھنے کا وعدہ کیا تھا۔
اور پھر اپنی رسمی ’پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس‘ میں بیٹھ کر ہمیں بتایا کہ وہ تعلیم یافتہ پاکستانی نوجوانوں کے کام کو کتنی اہمیت دیتے ہیں جو فری لانسرز کے طور پر ملک میں 40 کروڑ ڈالرز لے کر آئے ہیں جبکہ انہوں نے یہاں تک کہا کہ انہیں امید ہے کہ مستقبل میں یہی نوجوان 90 سے 100 ڈالرز فی گھنٹہ کما رہے ہوں گے۔
یہ وہی پرانا بجٹ ڈراما ہے۔ حکومت اساتذہ اور پروفیسرز پر مزید ٹیکس لگاتی ہے، طلبہ کے لیے اسکول کے ساز و سامان پر ٹیکس لگاتی ہے اور پھر نوجوانوں کی توانائی اور صلاحیت کی تعریف کرتی ہے۔ وہ ان لوگوں پر تنقید کرتے ہیں جو ٹیکس ادا نہیں کرتے لیکن ساتھ ہی ان لوگوں سے زیادہ پیسے لیتے ہیں جو پہلے سے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ تنخواہ دار طبقے کو صرف اتنا ریلیف ملا ہے کہ وہ ہر ماہ صرف ایک بار پیزا ڈیلیوری کروا سکتے ہیں۔
وزیر خزانہ نے یہ کہہ کر اس کا دفاع کیا کہ ہم درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں خواہ تسلی بخش کیوں نہ ہو اور یہ بھی اشارہ دیا کہ ایک بار ٹیکس بڑھ جائے تو وہ کبھی کم نہیں ہوتا۔ گویا وہ انتہائی شائستہ انداز میں یہ کہہ گئے کہ ’اپنی نعمتوں پر شکرگزار رہو، دیگر لوگ آپ کو اس سے بھی کم دیتے جو میں نے آپ کو دیا‘۔
چلیے ’سفر کی درست سمت‘ کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ پاکستان میں ٹیکس اصلاحات کی آخری سنجیدہ کوشش 2009ء میں ریفارمڈ جنرل سیلز ٹیکس بل تھا۔ لیکن یہ بری طرح ناکام ہوا کیونکہ پارلیمنٹ میں حکومت کے اتحادیوں نے بھی اس کی حمایت میں ووٹ دینے سے انکار کیا۔
اس کے بعد سے حقیقی اصلاحات کے بجائے، حکومت نے ٹیکس قوانین کی تعمیل کرنے والے رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان سے زیادہ رقم بٹورنے کے لیے مذموم چالوں کا استعمال کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ انہوں نے ٹیکس دہندگان کی نئی زمرے اور آمدنی کی وضاحت کرنے کے نئے طریقے بنائے ہیں۔ 2010ء کی دہائی کے وسط میں حکومت ’ٹیکس ریٹرن نان فائلر‘ (وہ شخص جو ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرواتا) کے نام سے ایک نئی کیٹیگری لے کر آئی۔
2022ء میں انہوں نے ’ڈیمڈ انکم‘ (خیالی آمدنی والے پر ٹیکس) نامی ایک اور زمرہ بنایا۔ اس کے علاوہ حکومت نے ایمنسٹی اسکیمیں، ترغیبات اور جرمانے کی دھمکیاں دیں تاکہ نان فائلرز کو رجسٹر کروانے کی کوشش کی جاسکے اور ٹیکس دینے پر مجبور کیا جاسکے۔
اس کا آغاز 2014ء میں ایمنسٹی اسکیم اور نان فائلرز کے بینک ٹرانزیکشن پر ودہولڈنگ ٹیکس کے ساتھ ہوا۔ پھر 2019ء میں ایف بی آر کو دسیوں ہزار خاص طور پر خدمات کے شعبے میں نان فائلرز کو نوٹس بھیجنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ 2021ء میں حکومت نے دکانوں میں ’پوائنٹ آف سیل‘ مشینوں کا استعمال کرتے ہوئے بھاری رقم جمع کرنے کا منصوبہ بنایا جو ریٹیل سیکٹر میں مرکزی دھارے میں آنے والی تھیں۔
2022ء میں حکومت نے فیصلہ کیا کہ امیر لوگوں کے غیر فعال اثاثے (ان کے گوشواروں میں درج) کے لیے یہ سمجھا جائے کہ جیسے وہ آمدنی حاصل کررہے ہوں اور انہوں نے دکانداروں پر اس بنیاد پر ٹیکس لگانے کی بھی کوشش کی کہ وہ کتنی بجلی استعمال کرتے ہیں یا ان کے اسٹور کتنے بڑے ہیں۔ 2024ء میں ’تاجر دوست اسکیم‘ کا اعلان بھی اسی وزیرخزانہ نے کیا تھا جنہوں نے منگل کو بجٹ پیش کیا۔
اور دہائی پر محیط طویل کوششوں کے بعد ہمارے پاس دکھانے کے لیے کیا ہے؟ صرف ان لوگوں اور کاروباروں کی بڑی فہرستیں جو ابھی تک ٹیکس ادا نہیں کرتے ہیں؟ یہ تمام ٹیکس اسکیمیں اور حکمت عملی ایسی حکومت کو ظاہر کرتی ہیں جو محدود وسائل سے کام کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔
دوسری جانب ہر سال وہی عمل دہرایا جاتا ہے۔ ایک نئی اسکیم کا اعلان کیا جاتا ہے اور جو لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں ان پر مزید بوجھ ڈال دیا جاتا ہے جبکہ ہم سب کو یاددہانی کروائی جاتی ہے کہ مشکل وقت ہے اور مالیاتی مواقع محدود ہیں۔ یہ جمود یا کسی طرح کی تبدیلی لانے میں ناکامی، ریاست کو عدم استحکام کی مزید گہرائی میں دھکیل رہی ہے کیونکہ وہ ٹیکس دہندگان سے مزید رقم نچوڑ رہی ہے جبکہ اپنی بقیہ ضروریات قرض لے کر پوری کررہی ہے۔ یہ سال اہم موڑ ثابت ہو سکتا تھا لیکن کچھ بھی نہیں بدلا۔
اس کے بجائے ہمیں پہاڑ جتنی اعتدال پسندی ملی ہے جسے ہم بجٹ کہہ رہے ہیں۔ بہتری کی جانب پیش قدمی میں ناکامی کا ایک اور سال! آئی ایم ایف کے ایک جائزے سے لے کر اگلے تک بمشکل انتظام کرنے کا ایک اور سال کیونکہ اس دائرے سے چھٹکارے کا کوئی حقیقی حل نظر نہیں آتا۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔













لائیو ٹی وی