سعودی عرب سمیت متعدد ممالک کی ایران پر ’اسرائیلی جارحیت‘ کی مذمت
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے تہران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے کے لیے جمعہ کی علی الصبح ایرانی جوہری اہداف پر حملہ کیا، جبکہ ایرانی میڈیا اور عینی شاہدین نے ملک کی یورینیم افزودگی کی مرکزی تنصیب سمیت متعدد مقامات پر دھماکوں کی اطلاع دی ہے۔
خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اسے ’اسرائیل کی تاریخ کا فیصلہ کن لمحہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک جوہری بم اور میزائل فیکٹریوں پر کام کرنے والے ایرانی سائنسدانوں کو بھی ایک آپریشن میں نشانہ بنا رہا ہے جو کئی دنوں تک جاری رہے گا۔
ایران نے طویل عرصے سے کہا ہے کہ اس کی جوہری سرگرمیاں پرامن مقاصد کے لیے ہیں۔
اسرائیل نے تہران کی طرف سے جوابی میزائل اور ڈرون حملوں کے پیش نظر ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا ہے۔
دنیا بھر کے اعلیٰ حکام اور حکومتوں کی جانب سے اسرائیل کے ایران پر بڑے حملے کا ردعمل سامنے آرہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اپنے بیان میں کہا کہ ’آج رات، اسرائیل نے ایران کے خلاف یکطرفہ کارروائی کی، ہم ایران کے خلاف حملوں میں ملوث نہیں ہیں اور ہماری اولین ترجیح خطے میں امریکی افواج کی حفاظت ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ایران کو امریکی مفادات یا اہلکاروں کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے‘۔
اسرائیلی جارحیت سے بین الاقوامی سلامتی کو خطرہ ہے، عراق
عراق نے ایران کے خلاف اسرائیل کی ’فوجی جارحیت‘ پر اظہار مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ فضائی حملوں کی لہر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور عالمی سلامتی کو خطرہ ہے۔
ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جمہوریہ عراق کی حکومت اسلامی جمہوریہ ایران کی سرزمین پر صہیونی حکومت کی طرف سے شروع کی گئی فوجی جارحیت کی شدید مذمت کرتی ہے۔
عراقی حکومت نے اپنے بیان میں کہا کہ ’یہ اقدام بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی کو ظاہر کرتا ہے، اور بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔‘
یورپی یونین کی اعلیٰ سفارت کار کا فریقین پر ’تحمل‘ پر زور
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کاجا کالاس نے تمام فریقین سے ’تحمل سے کام لینے‘ پر زور دیا اور ’تشویش میں کمی کی طرف کسی بھی سفارتی کوششوں‘ کی حمایت کا اعلان کیا۔
کاجا کالاس نے ’ایکس‘ پر بیان میں کہا کہ ’مشرق وسطیٰ کی صورتحال خطرناک ہے، میں تمام فریقین سے تحمل سے کام لینے اور مزید کشیدگی کو روکنے کی اپیل کرتی ہوں، سفارتکاری ہی آگے بڑھنے کا بہترین راستہ ہے، اور میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کسی بھی سفارتی کوشش کی حمایت کے لیے تیار ہوں‘۔
برطانوی وزیر اعظم کا ’سفارتکاری کی طرف پلٹنے میں‘ کا مطالبہ
برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے تمام فریقین سے ایک قدم پیچھے ہٹنے اور کشیدگی کو کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’حملوں کی اطلاعات تشویشناک ہیں اور ہم تمام فریقین سے پیچھے ہٹنے اور کشیدگی کو فوری طور پر کم کرنے کی اپیل کرتے ہیں، کشیدگی میں اضافے سے خطے میں کسی کا فائدہ نہیں ہوگا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مشرق وسطیٰ میں استحکام ترجیح ہونی چاہیے اور ہم کشیدگی کو کم کرنے کے لیے شراکت داروں کو شامل کر رہے ہیں، اب تحمل، پرسکون ہونے اور سفارت کاری کی طرف واپسی کا وقت ہے‘۔
کریملن کی اسرائیل-ایران کشیدگی کی مذمت
روس کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ روس نے اسرائیل اور ایران کے درمیان ’بڑھتی ہوئی کشیدگی‘ پر اظہار مذمت اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ترجمان دمتری پیسکوف نے سرکاری خبر رساں ایجنسیوں کو بتایا کہ روس کو تشویش ہے اور وہ کشیدگی میں تیزی سے اضافے پر اظہار مذمت کرتا ہے۔
تل ابیب میں روسی سفارت خانے نے بھی اسرائیل میں روسیوں پر زور دیا کہ اگر وہ ہو سکے تو ملک چھوڑ دیں اور کہا کہ وہ ’صورتحال کے معمول پر آنے تک‘ سختی سے وہاں کا سفر نہ کرنے کا ’مشورہ‘ دیتا۔
سعودی عرب کی ’اسرائیلی جارحیت‘ کی مذمت
ریاض، جو دو سال قبل مفاہمت سے قبل تہران کا حریف تھا، نے حملوں کی اس لہر کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے جو اسرائیل کے مطابق اس نے ایران میں جوہری اور فوجی مقامات کے خلاف شروع کیا ہے۔
سعودی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’سعودی عرب، برادر اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف صریح اسرائیلی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے، جو اس کی خودمختاری اور سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے ہے اور بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے‘۔
ایران-امریکا جوہری مذاکرات میں ثالثی عُمان
عمان کی جانب سے صورتحال پر ردعمل میں کہا گیا کہ ’عمان اس عمل کو ایک خطرناک، غفلت کی بنا پر شدت میں اضافہ سمجھتا ہے، جو اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قوانین کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کی ہے، اس طرح کا جارحانہ، مسلسل رویہ ناقابل قبول ہے اور علاقائی امن و سلامتی کو مزید غیر مستحکم کرتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’سلطنت عمان، اسرائیل کو اس کشیدگی اور اس کے نتائج کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے، اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس خطرناک اقدام کو روکنے کے لیے ایک مضبوط اور واضح موقف اپنائے‘۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ترجمان
ترجمان سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ نے کہا کہ ’انتونیو گوتریس مشرق وسطیٰ میں کسی بھی فوجی کشیدگی کی مذمت کرتے ہیں، وہ خاص طور پر ایران میں جوہری تنصیبات پر اس وقت اسرائیلی حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں جب ایران اور امریکا کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے بات چیت جاری ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سیکریٹری جنرل نے دونوں فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں، ہر قیمت پر گہرے تنازع کی طرف جانے سے گریز کریں، ایسی صورتحال جس کا خطہ متحمل نہیں ہو سکتا‘۔
متحدہ عرب امارات کا تحمل اور سمجھداری کا مظاہرہ کرنے پر زور
متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے ’خطرات کو کم کرنے اور تنازع کو پھیلنے سے بچانے کے لیے انتہائی تحمل اور سمجھداری کا مظاہرہ‘ کرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
اماراتی وزارت خارجہ نے بیان میں کہا کہ ’بات چیت بڑھانے، بین الاقوامی قانون کی پاسداری اور ریاستوں کی خودمختاری کا احترام موجودہ تنازع کے حل کے لیے اہم اصول ہیں‘۔
متحدہ عرب امارات نے سفارتکاری کے ذریعے تنازع کے حل پر زور دیا اور اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل سے مطالبہ کیا کہ جنگ بندی کے حصول اور بین الاقوامی امن و سلامتی کی تقویت کے لیے فوری اور ضروری اقدامات کیے جائیں۔
ایران پر اسرائیل کا حملہ سفارتی کوششوں کو ’نقصان‘ پہنچا ہے، قطر
غزہ کے ثالث قطر نے ایران پر اسرائیلی حملوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس سے کشیدگی کو کم کرنے اور سفارتی حل تک پہنچنے کی کوششوں کو ’پہنچا‘ ہے۔
خلیجی ریاست کی وزارت خارجہ نے سرکاری قطر نیوز ایجنسی کے ذریعے رپورٹ کردہ بیان میں کہا کہ ’قطر، اسرائیلی حملے پر شدید مذمت کا اظہار کرتا ہے‘، مزید کہا کہ ’خطرناک کشیدگی سے خطے کی سلامتی اور استحکام کو خطرہ ہے اور کشیدگی کو کم کرنے اور سفارتی حل تک پہنچنے کی کوششوں میں رکاوٹ ہے‘۔
چین کی ایران کی خودمختاری کی ’خلاف ورزیوں‘ پر اظہار مذمت
چین نے کہا ہے کہ اسے ایران پر اسرائیلی حملوں پر ’شدید تشویش‘ ہے، وہ ملک کی خودمختاری کی ’خلاف ورزیوں‘ پر اظہار مذمت کرتا ہے اور کشیدگی کو کم کرنے میں مدد کی پیشکش کرتا ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان لن جیان نے کہا کہ چینی فریق اس طرح کے اقدامات کے سنگین نتائج کے بارے میں گہری تشویش میں مبتلا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’چین متعلقہ فریقین سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ایسے اقدامات کریں جس سے علاقائی امن و استحکام کو فروغ ملے اور کشیدگی میں مزید اضافہ نہ ہو‘۔
ترکیہ کا اسرائیل پر ’جارحانہ اقدامات‘ بند کرنے پر زور
ترک وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل کو اپنے جارحانہ اقدامات کو فوری طور پر بند کرنا چاہیے جو مزید تنازعات کا باعث بن سکتے ہیں۔
قبل ازیں خبر رساں ایجنسی ’اے پی‘ کے مطابق ترکیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ایران پر اسرائیل کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں ’وحشیانہ‘ اور بلاجواز جارحیت قرار دیا تھا۔
ترک صدر رجب طیب اردوان کی گورننگ پارٹی کے ترجمان عمر سیلک نے کہا کہ یہ کارروائی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے، جس کا مقصد غزہ میں اس کے اقدامات پر بین الاقوامی تنقید سے توجہ ہٹانا ہے۔
عمر سیلک نے ’ایکس‘ پر پوسٹ میں کہا کہ ’اسرائیلی حملے کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا، یہ وحشیانہ جارحیت ہے‘۔
انہوں نے الزام لگایا کہ اسرائیل نے امریکا اور ایران کے درمیان جاری مذاکرات کے دوران اس حملے کے ذریعے سفارتی کوششوں کے خلاف ’دشمنی‘ کا مظاہرہ کیا ہے۔
بھارت کا اسرائیل اور ایران پر کشیدگی میں اضافہ نہ کرنے پر زور
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے اسرائیل اور ایران دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ ’کشیدگی میں اضافہ کرنے والے کسی بھی اقدام سے گریز کریں‘۔
انہوں نے کہا کہ بھارت ’مذاکرات اور سفارت کاری‘ پر زور دیتا ہے اور جوہری مقامات پر حملوں سے متعلق رپورٹس سمیت ابھرتی ہوئی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔
آسٹریلیا کے وزیر خارجہ پینی وونگ
آسٹریلیا کے وزیر خارجہ پینی وونگ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’آسٹریلیا، اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ سے پریشان ہے، اس سے ایک ایسا خطہ مزید غیر مستحکم ہونے کا خطرہ ہے جو پہلے سے ہی غیر مستحکم ہے، ہم تمام فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسے اقدامات اور بیان بازی سے گریز کریں جس سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہو‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم سب سمجھتے ہیں کہ ایران کا جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگرام بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے، اور ہم فریقین پر زور دیتے ہیں کہ وہ بات چیت اور سفارت کاری کو ترجیح دیں‘۔
نیوزی لینڈ کے وزیر اعظم کرسٹوفر لکسن
نیوزی لینڈ کے وزیر اعظم کرسٹوفر لکسن نے کہا کہ ’یہ مشرق وسطیٰ میں واقعی ایک ناپسندیدہ پیشرفت ہے، غلط اندازے کا خطرہ زیادہ ہے، اس خطے کو مزید فوجی کارروائی اور اس سے وابستہ خطرے کی ضرورت نہیں ہے‘۔
جاپان کا شدید اظہار مذمت
جاپان کے وزیر خارجہ تاکیشی ایویا نے ٹوکیو میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایران پر اسرائیل کے فضائی حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور تمام فریقین سے تحمل کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم اس تازہ ترین کارروائی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں جس سے صورتحال مزید خراب ہوئی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مشرق وسطیٰ کے خطے میں امن و استحکام جاپان کے لیے انتہائی اہم ہے، اور ہم اس میں شامل تمام فریقین پر زور دیتے ہیں کہ وہ انتہائی تحمل کا مظاہرہ کریں اور حالات کو پرسکون کریں‘۔