امریکا کے بڑے شہروں میں ٹرمپ مخالف ریلیاں، فوج کی تعیناتی پر عوام برہم

شائع June 15, 2025
—فائل فوٹو: این پی آر
—فائل فوٹو: این پی آر

امریکا کے مختلف بڑے شہروں میں صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے، مظاہرین نے شہری علاقوں میں فوج کی تعیناتی کو طاقت کے غیر ضروری استعمال سے تعبیر کیا اور کہا کہ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی آزادیٔ اظہار اور شہری حقوق کے منافی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق نیویارک سے لے کر لاس اینجلس تک امریکا کے بڑے شہروں میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف نکالی گئی ریلیوں اور مارچز میں دس ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی۔

یہ مظاہرے جنوری میں ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کی صدارت کے خلاف سب سے بڑے عوامی ردعمل کے طور پر سامنے آئے۔

مظاہروں کا آغاز اُس دن ہوا جب ہزاروں فوجی اہلکار، فوجی گاڑیاں اور طیارے واشنگٹن ڈی سی میں امریکی فوج کی 250ویں سالگرہ کے موقع پر پریڈ اور فضائی مظاہرے میں شریک تھے۔

واضح رہے کہ نیشنل گارڈ کے دستے اور امریکی میرینز لاس اینجلس میں تعینات کیے گئے ہیں، ٹرمپ نے انہیں اپنی امیگریشن پالیسیوں کے خلاف ممکنہ مظاہروں کے دوران، ڈیموکریٹک اکثریتی شہر کو محفوظ رکھنے کے لیے تعینات کیا ہے۔

ٹرمپ مخالف گروہوں نے ملک بھر میں تقریباً 2 ہزار مظاہروں کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ یومِ پریڈ کے ساتھ ساتھ احتجاج بھی کیا جاسکے۔

اِن میں سے کئی مظاہرے ’نو کنگز‘ کے نعرے کے تحت ہو رہے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں۔

تاہم، تمام منصوبہ بند ’نو کنگز‘ احتجاجی مظاہرے منی سوٹا میں اُس وقت منسوخ کر دیے گئے جب ایک ڈیموکریٹک قانون ساز کو قتل کردیا گیا اور دوسرے کو زخمی کر دیا گیا۔

مظاہرین پر آنسو گیس شیلنگ کا استعمال

اے ایف پی کے مطابق، ہزاروں افراد لاس اینجلس میں صدر ٹرمپ کی جانب سے ملک کے دوسرے بڑے شہر میں فوجی تعیناتی کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے، یہ مظاہرے امیگریشن چھاپوں کے بعد پیدا ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں شروع ہوئے۔

لاس اینجلس پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور گھڑ سوار اہلکاروں کا استعمال کیا، یہ مظاہرین شہر کے مرکز میں واقع اُس وفاقی عمارت کے سامنے جمع تھے، جو گزشتہ ایک ہفتے سے مظاہروں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

موقع پر موجود اے ایف پی کے رپورٹرز کے مطابق، صورتحال مکمل طور پر بے قابو نہیں تھی، تاہم مقامی پولیس مظاہرین کو اُس علاقے سے ہٹارہی تھی جہاں نیشنل گارڈ اور میرینز تعینات ہیں۔

کچھ مظاہرین نے فلوریڈا کے شہر پام بیچ میں واقع صدر ٹرمپ کی مار-اے-لاگو رہائش گاہ کو بھی احتجاج کا ہدف بنایا، جب کہ ایک چھوٹے گروہ نے پیرس میں اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے مظاہرہ کیا۔

واشنگٹن کے نواحی علاقے بیتیسڈا میں مظاہرے میں شریک 42 سالہ سارہ ہارگریو نے کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ یہ سب بہت ہی قابلِ نفرت ہے، انہوں نے ٹرمپ کی فوجی پریڈ کو ’آمریت کا مظاہرہ‘ قرار دیا۔

ہفتے کے روز شمالی ریاست مینیسوٹا میں ڈیموکریٹ رکن اسمبلی اور ان کے شوہر کے قتل نے، جسے گورنر نے ایک منصوبہ بند اور ہدف بنا کر کیا گیا حملہ قرار دیا، مارچ کی فضا کو مزید سوگوار کر دیا۔

صدر ٹرمپ نے منی ایپلس کے قریب ہونے والے ان حملوں کی فوری مذمت کی، جن میں ریاست کی سابق اسپیکر ملیسا ہورٹ مین اور ان کے شوہر ہلاک ہوگئے، جب کہ ایک اور رکن اسمبلی اور ان کی اہلیہ گولی لگنے کے بعد اسپتال منتقل کیے گئے۔

قابلِ نفرت مظاہرہ

ڈاؤن ٹاؤن لاس اینجلس میں ہزاروں مظاہرین نے مارچ شروع کیا، جو کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے تھے اور مظاہرین کی قطاریں تقریباً ایک درجن شہر بلاکس تک پھیل گئیں۔

دوپہر تک مظاہرہ پُرامن رہا اور اس دوران امریکی جھنڈے، جن میں سے کئی الٹے لہرائے جارہے تھے، میکسیکن جھنڈوں کی نسبت کہیں زیادہ تعداد میں موجود تھے۔

46 سالہ ایریکا رائس نے کہا کہ وہ اپنی زندگی میں پہلی بار کسی احتجاج میں اس لیے شامل ہوئیں کیونکہ ٹرمپ نے امیگریشن چھاپوں میں آئی سی ای کی مدد کے لیے فوج کے استعمال اور اُن کے شہر میں وفاقی عمارتوں کی حفاظت کے لیے فوجی تعیناتی کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہاں فوج کا استعمال امریکی عوام اور تارکین وطن پر طاقت مسلط کرنے کی ایک قابلِ نفرت کوشش ہے۔

ہفتے کے روز ہزاروں افراد شکاگو کے ڈیلی پلازہ اور اس سے ملحقہ سڑکوں پر جمع ہوئے، جہاں مشہور پکاسو کے مجسمے کے نیچے احتجاج کیا گیا۔

مظاہرے میں شامل کچھ افراد ’اسے جیل میں ڈالو!‘ کے نعرے لگارہے تھے، جو صدر ٹرمپ کے خلاف ایک اشارہ تھا۔

دائیں بازو کے شدت پسند گروہ ’پراؤڈ بوائز‘ کے ارکان، جو ٹرمپ کے پُرجوش حامی سمجھے جاتے ہیں، اٹلانٹا میں منعقدہ ’نو کنگز‘ احتجاج میں گروپ کے مخصوص سیاہ و زرد رنگ کے یونیفارم میں شریک ہوئے۔

لاس اینجلس میں امریکی میرینز نے جمعہ کے روز ایک شہری کو بھی حراست میں لیا، جو ملکی پولیس کی مدد کے لیے فوج کے غیرمعمولی استعمال کی ایک مثال ہے۔

اے ایف پی کے مطابق، اس کے نمائندے نے براہ راست دیکھا کہ میرینز نے وفاقی عمارت کے سامنے ایک شخص کو عارضی طور پر حراست میں لیا اور بعد میں اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کردیا۔

بعدازاں امریکی فوج نے متعدد بار پوچھنے پر بھی گرفتاری کی وجہ نہیں بتائی، تاہم یہ واقعہ ایک غیرمعمولی مثال ہے کہ وفاقی فوجی اہلکاروں نے کسی امریکی شہری کو براہِ راست حراست میں لیا ہو۔

کارٹون

کارٹون : 26 جون 2025
کارٹون : 25 جون 2025