ترقیاتی منصوبوں پر سندھ کےساتھ ’امتیازی سلوک‘، سینیٹ کمیٹی میں وفاقی حکومت پر شدید تنقید
سینیٹ کی منصوبہ بندی و ترقی کمیٹی کے اجلاس میں ارکان نے سندھ کے ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ امتیازی سلوک پر وفاقی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور ایک جیسی پالیسی اپنانے کا مطالبہ کیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سندھ اور وفاقی حکومت کے درمیان ترقیاتی منصوبوں پر اختلافات سینیٹ کی منصوبہ بندی و ترقی کی کمیٹی کے اجلاس کے دوران شدت اختیار کرگئے۔
یہ اجلاس آئندہ مالی سال کے لیے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کا جائزہ لینے کے لیے بلایا گیا تھا۔
کمیٹی کی چیئرپرسن سینیٹر قرۃ العین مری نے بجٹ میں مختص رقم کے حوالے سے سندھ کے ساتھ امتیازی سلوک پر اعتراض کیا۔
قرۃ العین مری نے کہا کہ وہ جاننا چاہتی ہیں کہ وفاق کی جانب سے سندھ کے ساتھ کالونی جیسا سلوک کیوں کیا جارہا ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) پہلے ہی یہ فیصلہ کرچکی ہے کہ سابقہ پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) کے تمام منصوبے صوبوں کے حوالے کیے جائیں گے، تاہم دیگر تین صوبوں کے برعکس یہ فیصلہ سندھ میں نافذ نہیں کیا جارہا۔
سینیٹر نے مزید کہا کہ سندھ کے وزیرِ اعلیٰ مراد علی شاہ نے اس معاملے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پی ڈبلیو ڈی کے منصوبے سندھ کے حوالے کیے جائیں گے، لیکن اس وعدے پر عمل نہیں کیا گیا۔
قرۃ العین نے پاک پی ڈبلیو ڈی کے منصوبے سندھ کے حوالے نہ کرنے پر وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
وزارت کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ایک پینل نے سندھ سے متعلق 27 منصوبوں کے مستقبل کے تعین کے لیے فیصلہ کیا ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں کے منصوبے وفاق کے حوالے کیے جائیں گے، جب کہ دیہی علاقوں کے منصوبے صوبائی حکومت کے حوالے ہوں گے۔
تاہم، سندھ نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے تمام منصوبوں کو صوبے کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔
پیپلز پارٹی کی سینیٹر نے سوال اٹھایا کہ کیا دیگر صوبوں میں بھی ’شہری اور دیہی تفریق‘ کی پیروی کی جارہی ہے۔
اس پر وزارت ہاؤسنگ کے حکام نے جواب دیا کہ کسی اور صوبے میں ایسا کوئی فرق نہیں رکھا گیا۔
سینیٹ کی کمیٹی نے تمام منصوبے سندھ کے حوالے کرنے کی سفارش کرتے ہوئے ملک بھر میں ایک جیسی پالیسی اپنانے کا مطالبہ کیا۔
کمیٹی نے متعلقہ وزارت کے سیکریٹری کو ہدایت دی کہ وہ یہ تحفظات منصوبہ بندی اور ترقی کے وزیر احسن اقبال تک پہنچائیں۔
سینیٹر شہادت اعوان نے افسوس کا اظہار کیا کہ وفاقی حکومت امتیازی رویہ اختیار کررہی ہے، جب کہ ہم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ہمیں ہمارے حقوق دیے جائیں گے۔
ایکسپو سینٹر
سینیٹ کی کمیٹی نے بعد ازاں کوئٹہ میں ایکسپو سینٹر کی جگہ کی تبدیلی سے متعلق شکایت پر غور کیا، جہاں پہلے ہی 30 کروڑ روپے خرچ کیے جاچکے تھے۔
کامرس ڈویژن کے حکام نے بتایا کہ کوئٹہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سمیت نجی اسٹیک ہولڈرز نے موجودہ جگہ پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
تاہم، انہوں نے کہا کہ اگر سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی فیصلہ کرے تو کامرس ڈویژن موجودہ مقام پر دوبارہ تعمیراتی کام شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔
دفاعی ڈویژن اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے)
دفاعی ڈویژن کے حکام نے سینیٹ کمیٹی کو جاری اور نئے منصوبوں کے بارے میں بریفنگ دی۔
بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ زیرِ تکمیل 22 میں سے 14 منصوبے آئندہ مالی سال کے دوران مکمل ہوجائیں گے۔
تاہم، حکام نے سینیٹرز کو مالی وسائل کی کمی کی طرف توجہ دلائی جس کی وجہ کم بجٹ مختص ہونا اور ایوی ایشن ڈویژن کا دفاعی ڈویژن میں انضمام بتائی گئی۔
انہوں نے فنڈز کے استعمال کے لیے مزید وقت طلب کیا کیونکہ پاک پی ڈبلیو ڈی کی بندش سے کئی منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر ہوئی ہے۔
پی ایس ڈی پی میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے منصوبوں کا جائزہ لیتے ہوئے این ایچ اے کے سربراہ نے کمیٹی کو بتایا کہ اگلے مالی سال کے لیے ان کی اتھارٹی کو 226.9 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جن میں کراچی تا کوئٹہ موٹروے کے لیے 100 ارب روپے شامل ہیں۔











لائیو ٹی وی