• KHI: Partly Cloudy 19.7°C
  • LHR: Partly Cloudy 14.6°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.6°C
  • KHI: Partly Cloudy 19.7°C
  • LHR: Partly Cloudy 14.6°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.6°C

سپریم کورٹ: آئینی بینچ نے 3 ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلہ آئینی و قانونی قرار دے دیا

شائع June 19, 2025
— فائل فوٹوز: سپریم کورٹ
— فائل فوٹوز: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 3 ججز کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلہ آئینی و قانونی قرار دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججز کی جانب سے دائر کردہ درخواستیں مسترد کردیں۔

ڈان نیوز کے مطابق عدالت نے 3، 2 کے تناسب سے جاری کردہ مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ ججز کا تبادلہ غیر آئینی نہیں ہے۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ کے جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس صلاح الدین پنہورنے اکثریتی فیصلے میں کہا ہے کہ صدر پاکستان کو آرٹیکل دو سو کے تحت ہائیکورٹ کے جج کو ایک عدالت سے دوسری عدالت میں منتقل کرنے کا اختیار حاصل ہے۔

مزید کہا گیا کہ یہ اختیار آرٹیکل ایک سو پچھتر کے تحت ججوں کی تقرری سے بالکل الگ ہے اور دونوں ایک دوسرے کو کالعدم نہیں کرتے، منتقلی کو تقرری سمجھنا آئین کی روح کے منافی ہے۔

عدالت نے قرار دیا ہے کہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ تمام عہدے صرف جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے ذریعے ہی پر کیے جانے چاہئیں، تو یہ مفروضہ آئین کے معماروں کے ارادے کے خلاف ہو گا، منتقلی ایک الگ آئینی شق کے تحت کی جاتی ہے، جو جوڈیشل کمیشن سے آزاد ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ 2010 کی دفعہ دو صرف تقرری سے متعلق ہے، اس کو تبادلے پر لاگو نہیں کیا جا سکتا اور یہ آئین کے آرٹیکل 200 کو محدود نہیں کر سکتی، اس لیے اس قانون کو بنیاد بنا کر تبادلے کو کالعدم قرار دینا درست نہیں ہوگا۔

عدالت نے واضح کیا کہ آرٹیکل 200 کے تحت صدر پاکستان کا اختیار غیر محدود نہیں بلکہ چار درجاتی طریقہ کار سے مشروط ہے، ان میں جج کی رضامندی، چیف جسٹس پاکستان سے مشاورت، دونوں متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے مشاورت اور عوامی مفاد کا جائزہ شامل ہے، اگر کسی جج نے ابتدا میں ہی منتقلی سے انکار کر دیا، تو معاملہ وہیں ختم ہو جاتا ہے۔

عدالت نے مزید کہا کہ اگر رضامندی ہو، تو بھی مشاورت کا عمل ضروری ہے، یہ سب مراحل عدلیہ کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں، اس لیے یہ عدلیہ کی آزادی پر کوئی اثر نہیں ڈالتے۔

عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ یکم فروری 2025 کا صدارتی نوٹیفکیشن آئین کے مطابق ہے اور اسے غیر آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا، اس لیے ججز کی اسلام آباد ہائیکورٹ کا تبادلہ برقرار رکھا گیا ہے، اکثریتی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ چونکہ سینیارٹی معاملہ ایک ہائیکورٹ کے اندرونی سینیارٹی کا نہیں بلکہ دیگر ہائی کورٹس سے منتقل ہونے والے ججز کا ہے، اس لیے اس پر ایک الگ پالیسی درکار ہے۔

عدالت نے قرار دیا کہ ملک میں ہائیکورٹ ججز کی کوئی آل پاکستان سینیارٹی لسٹ موجود نہیں، اس لیے تبادلے کے وقت اس حوالے سے بھی وضاحت درکار ہے۔

عدالت نے صدر پاکستان کو ہدایت دی ہے کہ وہ فوری طور پر نوٹی فکیشن کے ذریعے یہ واضح کریں کہ آیا ججز کی منتقلی مستقل ہے یا عارضی، اور ان کی سینیارٹی کا تعین ججز کے سروس ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد کیا جائے۔

عدالت نے قرار دیا ہے کہ جب تک صدرِ پاکستان مذکورہ وضاحتیں نہیں کرتے، جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر بطور قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کام کرتے رہیں گے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ تمام متفرق درخواستیں بھی اسی فیصلے کے تحت نمٹا دی گئی ہیں۔

دوسری جانب پانچ رکنی آئینی بینچ میں شامل دو اقلیتی ارکان جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شکیل احمد نے اپنا اختلافی نوٹ بھی جاری کردیا ہے، بینچ کے دو ججز نے اختلافی نوٹ میں صدارتی نوٹی فکیشن کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے درخواستیں منظور کرنے کی سفارش کی۔

اختلافی نوٹ کے مطابق تبادلہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی تقرری کے دائرے میں آتا ہے، اور ججز کے تبادلے کا یہ طریقہ کار آئین کی روح کے خلاف ہے۔

اختلافی نوٹ میں قرار دیا گیا ہے کہ آئین پاکستان 1973 کے آرٹیکل 200 کی شق دو شق ایک کے تابع ہے اور دونوں ایک دوسرے سے منسلک ہیں، ان دونوں شقوں کی تشریح ہم آہنگی کے اصول کے تحت کی جانی چاہیے، جس کے مطابق دونوں شقوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے پڑھا جائے تاکہ کوئی تضاد یا بے معنی نتیجہ نہ نکلے۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 200 کی شق ایک اور شق دو کو ایک ساتھ پڑھنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جب صدر مملکت اپنی صوابدید کے تحت کسی ہائی کورٹ کے جج کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کرتے ہیں، تو وہ جج اس مدت کے لیے اس ہائی کورٹ میں خدمات انجام دیتا ہے جس کے دوران اسے تنخواہ کے علاوہ اضافی مراعات اور الاؤنسز ملتے ہیں، جو صدر مملکت طے کرتے ہیں۔

اختلافی نوٹ میں زور دیا گیا ہے کہ آرٹیکل 200 کی شق ایک اور شق دو ججز کی مستقل تبدیلی کی اجازت نہیں دیتیں، یہ دونوں شقوں سے واضح ہے کہ ججز کی تبدیلی صرف عارضی بنیادوں پر ہو سکتی ہے، نہ کہ مستقل طور پر۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے وفاق کی نمائندگی کرتے ہوئے عدالت کو واضح طور پر بتایا کہ مذکورہ تین ججز کو صدر مملکت نے نوٹیفکیشن کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں مستقل طور پر منتقل کیا تھا۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ تبادلے کا عمل متعلقہ چیف جسٹسز اور چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ معنی خیز، ہدف پر مبنی، اور اتفاق رائے پر مبنی مشاورت سے عاری تھا، تین ججز کی مستقل تبدیلی کا عمل غیر ضروری عجلت میں مکمل کیا گیا، جو اس کی شفافیت پر سوال اٹھتا ہے۔ یہ عمل حقائق اور قانون دونوں میں بدنیتی کا شکار تھا، جو اسے آئینی طور پر ناقابل قبول بناتا ہے۔ یہ تبادلہ عوامی مفاد میں نہیں کیا گیا، صدر مملکت نے تین ججز کا مستقل تبادلہ کرتے وقت اپنی آزادانہ رائے اور معروضی فیصلے کا استعمال نہیں کیا۔

اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ تمام صوبوں کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں متناسب نمائندگی کا مقصد جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے تحت نئے ججز کی تقرری کے ذریعے آسانی سے حاصل کیا جا سکتا تھا، ججز کی تقرری رولز کے تحت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے ارکان پر لازم ہے کہ وہ علاقائی، صنفی، اور مذہبی تنوع کو یقینی بنائیں۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ججز کا مستقل تبادلہ آئین کے آرٹیکل دو، آرٹیکل چار، اور آرٹیکل پچیس کی خلاف ورزی ہے اور اس نے عدلیہ کی آزادی، قانون کی حکمرانی، اور مساوات کے اصول کو نقصان پہنچایا، تین ججز کی مستقل تبدیلی نے لاہور، سندھ، اور بلوچستان ہائی کورٹس سے اسلام آباد ہائی کورٹ تک ججز کی برادری میں تناؤ پیدا کیا۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزاروں کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 موجودہ ججز نے 25 مارچ دو ہزار چوبیس کو چیف جسٹس آف پاکستان اور جودیشل کمیشن کے دیگر تین اراکین کو خط لکھا تھا، جس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے عدالتی امور میں مداخلت اور ججز کو دھمکانے کی شکایات کی گئی تھیں۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ کے فل کورٹ اجلاس اور عدالتی سطح پر بحث ہوئی، جس نے تین ججز کی تبدیلی کے عمل کو متحرک کیا۔

اختلافی نوٹ میں دونوں ججز نے وکیل کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ججز کی تقرری یا تبدیلی میں کردار ادا کیا، ججز نے قرار دیا کہ آئین کے تحت ایجنسیوں کا ججزء کی تقرری یا تبدیلی میں کوئی کردار نہیں، وہ ایگزیکٹو کے ماتحت ہیں اور ایگزیکٹو، عدلیہ، یا آئینی اداروں پر حاوی نہیں ہو سکتی۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر وکیل کا دعویٰ درست بھی مان لیا جائے تو یہ ایک تشویشناک صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔ صدر مملکت کا نوٹیفکیشن غیر آئینی، غیر قانونی، اور باطل ہے، تمام آئینی درخواستوں کو منظور کرتے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ججز کے تبادلے کے نوٹی فکیشن کو کالعدم قرار نہیں دے رہے، صدر مملکت سنیارٹی کے معاملے کو جتنی جلد ممکن ہو طے کریں۔

عدالت نے قرار دیا ہے کہ جب تک صدر مملکت سنیارٹی طے نہیں کرتے، قائم مقام چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر ہی امور سرانجام دیتے رہیں گے۔ عدالت نے ججز کی سنیارٹی کا معاملہ صدر پاکستان کو واپس بھیج دیا۔

قبل ازیں جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

جمعرات کو سماعت کے آغاز میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کے وکیل ادریس اشرف نے دلائل سمیٹتے ہوئے کہا کہ ججز ٹرانسفر غیر قانونی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ میں سیاسی تبادلے کیے گئے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور سینئر قانون دان منیر اے ملک نے جواب الجواب میں دلائل دیے، تمام وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیا تھا۔

بینچ کے سربراہ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا تھا کہ ججز ٹرانسفر کے خلاف کیس کا مختصر فیصلہ آج سنائیں گے۔

واضح رہے کہ صدر مملکت کی جانب سے دیگر ہائی کورٹس سے ججز کا اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلہ کیے جانے کے بعد عدالت عالیہ کے 5 ججز نے سنیارٹی کے معاملے پر رواں سال 20 فروری کو سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے سینئر وکلا منیر اے ملک اور بیرسٹر صلاح الدین کے توسط سے آئین کے آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت دائر 49 صفحات پر مشتمل درخواست میں استدعا کی تھی کہ سپریم کورٹ قرار دے کہ صدر کو آرٹیکل 200 کی شق ایک کے تحت ججز کے تبادلے کے لامحدود اختیارات حاصل نہیں ہیں۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ مفاد عامہ کے بغیر ججز کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ ٹرانسفر نہیں کیا جاسکتا۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے نظر ثانی شدہ سنیارٹی لسٹ میں ججز کے عہدوں کو کم کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے گزشتہ فیصلوں پر اعتماد کا اظہار کیا تھا، جس میں بھارتی سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ بھی شامل ہے جس میں تقرریوں سے تبادلوں کو الگ کیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی جانب سے سنیارٹی لسٹ میں ترمیم کے خلاف دائر درخواست مسترد کردی تھی۔

یہ فیصلہ ججز کے تبادلے اور سنیارٹی سے متعلق آئینی دفعات اور عدالتی مثالوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد جاری کیا گیا تھا۔

یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا، جب وزارت قانون و انصاف نے یکم فروری کو ایک نوٹی فکیشن جاری کیا جس میں 3 موجودہ ججز جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمد آصف کا ان کے متعلقہ ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلہ کیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 17 دسمبر 2025
کارٹون : 16 دسمبر 2025