ایران میزائل پروگرام اور دفاعی صلاحیتوں پر کسی صورت مذاکرات نہیں کرے گا، عباس عراقچی

شائع June 20, 2025
— فائل فوٹو: اے ایف پی
— فائل فوٹو: اے ایف پی

ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ یورپی ممالک کے نمائندوں سے ملاقات میں ایران اپنے میزائل پروگرام اور دفاعی صلاحیتوں پر کسی صورت مذاکرات نہیں کرے گا، انہوں نے زور دیا کہ جنیوا میں یورپی فریقین کے ساتھ ہونے والی بات چیت صرف جوہری اور علاقائی امور کے گرد گھومے گی۔

جمعے کو ایرانی سرکاری ٹیلی ویژن ’آئی آر آئی بی‘ کو دیے گئے انٹرویو میں عباس عراقچی نے کہا کہ امریکا اب تک ایران سے سنجیدہ مذاکرات کی خواہش کا اظہار کرتا رہا ہے، لیکن انہوں نے واضح کیا کہ ایران امریکا سے بات نہیں کرے گا کیونکہ وہ اسرائیلی حکومت کے جاری جرائم میں شریک ہے۔

عباس عراقچی نے واضح کیا کہ وہ فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ سے مذاکرات کریں گے جو ان ممالک کی درخواست پر منعقد ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اب تک سب کو ایران کی میزائل طاقت کا اندازہ ہو جانا چاہیے، اور ایران کسی بھی صورت اپنے میزائل پروگرام پر بات چیت کے لیے تیار نہیں۔

عباس عراقچی نے یہ بھی بتایا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک اجلاس جلد منعقد ہونے جا رہا ہے جو روس، چین، پاکستان، الجزائر اور دیگر چند رکن ممالک کی درخواست پر بلایا جا رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی وزارت خارجہ 13 جون سے شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے ملک کی مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

تسنیم نیوز ایجنسی کے مطابق عباس عراقچی نے امریکا کی طرف سے اسرائیلی جنگی جارحیت کے دوران ایران پر مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’واضح کر دینا چاہیے کہ موجودہ حالات میں جب صہیونی حکومت کی جارحیت جاری ہے، ہم کسی سے بھی مذاکرات کا ارادہ نہیں رکھتے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے ایران کو مذاکرات کے کئی پیغامات موصول ہوئے ہیں، لیکن انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جب تک یہ (اسرائیلی) جارحیت ختم نہیں ہوتی، بات چیت اور سفارت کاری کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایران اپنا قانونی دفاعی حق استعمال کر رہا ہے اور یہ دفاع کسی قیمت پر نہیں رکے گا، ہم امریکا سے، جو (اسرائیلی) جرائم میں شریک ہے، کوئی بات چیت نہیں کریں گے، ہمارا ان سے نہ کوئی رابطہ ہے اور نہ ہی ہم موجودہ حالات میں کوئی رابطہ قائم کریں گے۔

دریں اثنا، عباس عراقچی نے سلامتی کونسل سے اپنی قرارداد 487 پر عملدر آمد کا مطالبہ کردیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر ایک پر ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے گزشتہ روز دن دیہاڑے اوراک ہیوی واٹر ری ایکٹر کو بمباری کا نشانہ بنایا، جو کہ عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی مکمل نگرانی میں ہے اور جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کے تحت طے شدہ تکنیکی معیارات کے عین مطابق تعمیر کیا جارہا تھا تاکہ کسی بھی ممکنہ پھیلاؤ کے خطرے کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ جیسا کہ آج اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس منعقد ہو رہا ہے، یہ نہایت ضروری ہے کہ کونسل اپنی ہی قرارداد 487 پر عمل درآمد کو یقینی بنائے، جو کہ 1981 میں عراق کے ایٹمی تنصیب پر اسرائیلی حملے کے ردعمل میں متفقہ طور پر منظور کی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس قرارداد کی زبان بالکل واضح ہے کہ کسی بھی ایٹمی تنصیب پر عسکری حملہ دراصل پوری آئی اے ای اے کی حفاظتی نگرانی کے نظام اور بالآخر این پی ٹی (عدم پھیلاؤ کے معاہدے) پر حملے کے مترادف ہے۔

عباس عراقچی نے کہا کہ یہ اصول صرف ماضی تک محدود نہیں بلکہ مستقبل کی کارروائیوں پر بھی لاگو ہوتا ہے اور واضح قانونی معیار فراہم کرتا ہے کہ کسی بھی محفوظ ایٹمی تنصیب پر طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

انہوں نے کہا کہ اگر سلامتی کونسل اب بھی کوئی کارروائی کرنے میں ناکام رہتی ہے، تو اسے بین الاقوامی برادری کو یہ وضاحت دینی ہوگی کہ کیا اس کے قانونی اصول صرف مخصوص حالات میں لاگو ہوتے ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ ایسی سنگین غفلت کی صورت میں عالمی عدم پھیلاؤ کے نظام کے ممکنہ انہدام کی ذمہ داری صرف اسرائیل پر نہیں بلکہ خود سلامتی کونسل پر بھی عائد ہوگی۔

کارٹون

کارٹون : 5 دسمبر 2025
کارٹون : 4 دسمبر 2025