ایران نے اسرائیل کیلئے جاسوسی کے الزام میں مزید 3 افراد کو پھانسی دے دی
ایران نے اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں مزید 3 افراد کو پھانسی دے دی، یہ کارروائی دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی کے نفاذ کے ایک روز بعد عمل میں آئی۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ نے ایرانی عدلیہ کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ پھانسی پانے والوں میں ادریس علی، آزاد شجاعی اور رسول احمد رسول شامل ہیں، جن پر ملک میں قتل کی کارروائیاں انجام دینے کے لیے سامان درآمد کرنے کی کوشش اور صہیونی حکومت کے حق میں تعاون کا الزام تھا۔
عدلیہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ سزاؤں پر آج صبح عملدرآمد کیا گیا ہے اور انہیں پھانسی دے دی گئی۔
اسرائیل سے تعاون کے مرتکب تینوں افراد کی پھانسی کی کارروائی ایران کے شمال مغربی شہر ارومیہ میں عمل میں آئی جو ترکیہ کی سرحد کے قریب واقع ہے، عدلیہ نے تینوں افراد کی نیلے قیدی لباس میں تصاویر بھی جاری کیں۔

میزان نیوز ایجنسی کے مطابق ان افراد نے جو سامان اسمگل کیا تھا، وہ ایک نامعلوم شخصیت کے قتل میں استعمال ہوا، تاہم اس شخصیت کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
تہران کی جانب سے اکثر ایسے افراد کی گرفتاری اور سزائے موت کا اعلان کیا جاتا ہے جن پر غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں، خصوصاً اسرائیل کے لیے جاسوسی کا شبہ ہوتا ہے۔
13 جون کو ایران اور اسرائیل کے درمیان کھلی جنگ کے آغاز کے بعد تہران نے اسرائیل سے مبینہ روابط رکھنے والے افراد کے خلاف فوری مقدمات چلانے کا اعلان کیا تھا۔
ایران نے گزشتہ اتوار اور پیر کو بھی موساد سے وابستگی کے الزام میں چند افراد کو پھانسی دی تھی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ایران، چین کے بعد دنیا میں سزائے موت دینے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔
اسرائیل کیلئے جاسوسی کے الزام میں 23 افراد پر فرد جرم عائد
دوسری جانب ایران کے صوبہ خوزستان میں 23 افراد پر اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں فردِ جرم عائد کر دی گئی ہے، سرکاری طور پر حکومت کی جانب سے سیکیورٹی کریک ڈاؤن میں تیزی کے بعد یہ کارروائی سامنے آئی ہے۔
نیم سرکاری خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق جنوب مغربی شہر اہواز کے سرکاری پراسیکیوٹرز نے ملزمان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ صوبے میں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث تھے، جن میں دشمن کے لیے معلومات جمع کرنا اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپیگنڈا پھیلانا شامل ہے۔
تاہم ان الزامات کی آزاد ذرائع یا انسانی حقوق کے اداروں سے فوری طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔













لائیو ٹی وی