کراچی: پہلی بار گلشن ٹاؤن نے یونین کمیٹی کی سطح پر ’ماسٹر پلان‘ تیار کرلیا

شائع July 6, 2025
—فائل فوٹو: ڈان نیوز
—فائل فوٹو: ڈان نیوز

جھلسا دینے والے سورج تلے، گلشنِ اقبال ٹاؤن کی یوسی 3 کی ایک تنگ گلی میں مزدور یونین کے چند ارکان اور اورنگی پائلٹ پروجیکٹ (او پی پی ) کے شہری منصوبہ ساز ایک جگہ ہاتھوں میں کلپ بورڈز تھامے ہوئے جمع ہیں، رہائشیوں کی شکایات اور بنیادی ڈھانچے کی کمی کو نوٹ کر رہے ہیں۔

بچے ان شہری منصوبہ سازوں کے درمیان سے گزرتے ہیں، نیچے کھلے ہوئے گڑھے اور قریب ہی ایک زنگ آلود پانی کے پائپ سے مسلسل رساؤ ہو رہا ہے، یہ سب علاقے کو درپیش طویل مدتی شہری مسائل کی خاموش یاد دہانیاں ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گلشنِ اقبال ٹاؤن کی انتظامیہ نے ’انقلابی اقدام‘ کے تحت اپنی 13 یونین کمیٹیوں میں سے ایک کے لیے ایک جامع ماسٹر پلاننگ پروجیکٹ کا آغاز کیا ہے، جو کراچی کی مقامی حکومت میں اس نوعیت کا پہلا قدم ہے۔

اس منصوبے میں شہر کے معروف ادارے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ (او پی پی) کے ساتھ شراکت داری کی گئی ہے، تاکہ نکاسی آب، پانی کی فراہمی، صفائی، تعلیم اور صحت کی سہولتوں جیسے اہم شہری نظاموں کا نقشہ تیار کیا جا سکے اور ان کا تجزیہ کیا جا سکے۔

حکام کو امید ہے کہ یہ ڈیٹا پر مبنی طریقہ نہ صرف بنیادی مسائل کی نشاندہی کرے گا، بلکہ طویل مدتی حل کے لیے درکار بجٹ کا اندازہ لگانے میں بھی مدد دے گا۔

ایک ایسا شہر جو منظم شہری منصوبہ بندی سے محروم رہا ہے، وہاں یہ یونین کمیٹی، جو ترقی یافتہ علاقوں اور کچی آبادیوں پر مشتمل ہے، کراچی کے دیگر ٹاؤنز کے لیے ایک ماڈل بن سکتی ہے۔

اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ مقامی سطح پر شراکتی منصوبہ بندی کے لیے ایک نہایت اہم مثال قائم کر سکتا ہے، ایسا ماڈل جس کی کراچی کو اشد ضرورت ہے، لیکن جو ہمیشہ سے غیر موجود رہا ہے۔

گلشنِ اقبال ٹاؤن کے چیئرمین ڈاکٹر فواد احمد کہتے ہیں کہ کراچی کے مسائل مقامی سطح پر ہیں، لیکن ہمارے حل ہمیشہ عمومی نوعیت کے رہے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ انتظامیہ نے مرکزی ہیڈ کوارٹر سے انجینئرز بھیجنے کے بجائے یو سی کی سطح پر تفصیلی منصوبہ بندی کیوں شروع کی؟۔

انہوں نے کہا کہ آپ ان انجینئرز کو نہیں بھیج سکتے جنہوں نے کبھی ان محلوں کی گلیوں میں قدم بھی نہ رکھا ہو اور توقع رکھیں کہ وہ صحیح ڈیزائن دیں گے، وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ او پی پی جیسے کمیونٹی پر مبنی اداروں کی مدد سے مقامی سطح پر منصوبہ بندی کا یہ اقدام وقت کی اہم ضرورت تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ ہم صرف سن نہیں رہے، بلکہ رہائشیوں کی ضروریات کو سنجیدگی سے دستاویزی شکل دے رہے ہیں، “یہ صرف گڑھے بھرنے یا نالے کھولنے کی بات نہیں ہے، بلکہ ہر محلے کی ضروریات کو سمجھنے، اس کے تقاضے جاننے اور پائیدار حل کے اخراجات کا اندازہ لگانے کی بات ہے۔

او پی پی کے فیلڈ انچارج اشرف ساگر بھی میدان میں یہی محسوس کرتے ہیں، جو یوسی 3 جمالی کالونی میں کام کی نگرانی کر رہے ہیں۔

وہ اس علاقے کی تصویر کچھ یوں کھینچتے ہیں کہ جمالی کالونی کراچی کے وسط میں واقع ہے، لیکن اسے دیکھ کر یقین نہیں آتا، یہ ایک بے ترتیب کچی آبادی ہے، جہاں گلیاں ٹوٹی پھوٹی ہیں، نکاسی آب کا نظام مربوط نہیں ہے، اور لیاری ایکسپریس وے سے جڑا انڈرپاس کا ڈرینیج باکس کچرے سے بھرا ہوا ہے، یہاں نہ صرف برسات میں بلکہ سال بھر کے لیے مناسب نکاسی کے لیے مرکزی نالے کی اشد ضرورت ہے۔

اشرف ساگر اس بات کو بھی افسوس ناک قرار دیتے ہیں کہ علاقے کی بڑھتی ہوئی زمین کی قیمت اور سابق وزیرِ اعظم ظفراللہ جمالی کے گھر کی موجودگی کے باوجود یہاں کبھی ماسٹر پلان نہیں بنایا گیا، حتیٰ کہ 2001 کے بعد سے بھی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہی چیز اس منصوبے کو تاریخی بناتی ہے، آزادی کے بعد پہلی مرتبہ ہم اس علاقے کو بوجھ نہیں، بلکہ شہر کے ایک اہم حصے کے طور پر دیکھ کر منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

سیاسی عزم، عوامی شمولیت اور ڈیٹا پر مبنی منصوبہ بندی کا یہ سنگم گلشنِ اقبال کے اس پائلٹ پروجیکٹ کو کراچی کے ماضی کے منتشر منصوبہ بندی کے رجحان سے ایک مثبت انحراف کے قابل بناتا ہے، اگر یہ ماڈل کامیاب ہو جاتا ہے تو ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ پورے شہر کے لیے ’روشنی‘ بن سکتا ہے، ایک نقشہ، ایک منصوبہ، ایک محلہ۔

او پی پی کی چیئر پرسن عقیلہ اسمعٰیل کے مطابق، یہ اشتراک ادارے کی دہائیوں سے جاری کمیونٹی پر مبنی کام کا تسلسل ہے، لیکن ساتھ ہی یہ ایک بڑے پیمانے کا چیلنج بھی ہے۔

عقیلہ اسمعیل نے بتایا کہ او پی پی 1985 سے کچی آبادیوں میں کمیونٹی پر مبنی منصوبہ بندی پر کام کر رہا ہے، ہم یونین کمیٹی کو ایک فعال اکائی کے طور پر دیکھتے ہیں، منتخب نمائندوں اور مقامی نوجوانوں کو نقشہ سازی سے لے کر ڈھانچہ بندی تک ہر عمل میں شامل کرتے ہیں، اس سے مقامی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور جو بھی منصوبہ بنایا جاتا ہے وہ زمین پر قابلِ عمل ہوتا ہے۔

انہوں نے بلدیاتی اداروں کے روایتی طریقوں پر تنقید کی۔

ان کا کہنا ہے کہ کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) یا کے الیکٹرک (کے ای) جیسے ادارے دفاتر میں بیٹھ کر ایسے نقشوں پر کام کرتے ہیں جن کا زمینی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اسی لیے ان کے منصوبے ناکام ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم گلشنِ اقبال میں ہر تفصیل کو سڑک کی سطح سے دستاویزی شکل دے رہے ہیں، آپ صرف سیٹلائٹ امیجری یا جی پی ایس پر انحصار نہیں کر سکتے، اصل شہری منصوبہ بندی حقیقی دنیا کے علم پر مبنی ہونی چاہیے۔

ان کے مطابق، یوسی 3 میں جاری یہ منصوبہ صرف ایک آزمائش نہیں، بلکہ ایک ماڈل ہے۔

عقیلہ اسمعیل کا ماننا ہے کہ اگر یہ پروجیکٹ کامیاب ہو جائے، تو یہ دکھاتا ہے کہ تبدیلی صرف ایک یونین کمیٹی سے شروع ہو سکتی ہے، یہی پیمانہ کراچی کو اپنانا ہو گا، مرکز میں عوام کو رکھتے ہوئے ایک یو سی ایک وقت میں ماڈل بنائی جائے۔

کارٹون

کارٹون : 14 جولائی 2025
کارٹون : 13 جولائی 2025