ٹرمپ-نتین یاہو ملاقات: جنگ بندی کے بعد فلسطینیوں کے لیے کیا سوچا گیا ہے؟

شائع July 7, 2025

غزہ میں نسل کشی کو روکنے کے منصوبے کا آغاز ممکنہ طور پر 60 روزہ جنگ بندی سے ہوگا جس کا اعلان آج اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں متوقع ہے۔ یہ امکان اس وقت پیدا ہوا کہ جب حماس نے کہا کہ اس نے تازہ ترین امریکی تجویز پر ’مثبت‘ جواب دیا ہے۔ یہ معاہدہ مستقل جنگ بندی اور شمالی غزہ سے اسرائیلی قابض افواج کے انخلا کا باعث بن سکتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری سے عین قبل بھی دونوں فریقین کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر اتفاق ہوا تھا لیکن یہ اسرائیل کی سخت گیر حکومت پر شدید دباؤ کے نتیجے میں ہوا تھا۔ اگرچہ نیتن یاہو انتہائی نظریات کے حامل ہیں، ان کے اتحادیوں میں سے کچھ اس سے بھی زیادہ انتہا پسند ہیں جو مقبوضہ فلسطین کو نسلی طور پر اس کے حقیقی مالکان سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔

نیا جنگ بندی معاہدہ بھی شاید زیادہ دن برقرار نہ رہ سکے۔ گزشتہ جنگ بندی صرف فروری سے مارچ تک ہی چل پائی تھی اور پھر اسرائیل کی جانب سے شہریوں کا قتل عام اس وقت دوبارہ شروع کردیا کہ جب وہ ’دوسرے مرحلے‘ میں جانے کے اپنے وعدے سے مکر گیا جس سے مستقل جنگ بندی عمل میں آسکتی تھی۔

مختلف میڈیا رپورٹس میں سامنے آنے والی نئے معاہدے کی تفصیلات میں 60 روزہ جنگ بندی کی تجویز دی گئی ہے جس کے بعد فلسطینی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے میں 7 اکتوبر 2023ء سے حماس کی قید میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا۔ ان اسرائیلی یرغمالیوں کی تعداد 50 ہے جن میں تقریباً تین درجن لاشیں بھی شامل ہیں۔ (مغربی میڈیا فلسطینی یرغمالیوں کو اسرائیلی جیلوں کا قیدی کہتا ہے لیکن چونکہ زیادہ تر کو فوجی عدالت کے ’انتظامی احکامات‘ پر کسی کارروائی کے بغیر قید کیا گیا ہے، اس لیے وہ بھی یرغمالی ہی کہلائیں گے)۔

مغربی میڈیا رپورٹس کے مطابق نیا معاہدہ، غزہ میں انتہائی ضروری خوراک اور دیگر امداد کو بدنام زمانہ ’غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن‘ (جی ایچ ایف) کے ذریعے نہیں بلکہ قابل اعتماد بین الاقوامی امدادی گروپوں کی مدد سے فراہم کرے گا۔ امریکی حمایت یافتہ جی ایچ ایف اس وقت بدنامی کا شکار ہوئی کہ جب اس کے کچھ ملازمین نے اپنے ضمیر کی آواز سنتے ہوئے گمنام طور پر بی بی سی کو بتایا کہ انہوں نے بھوک سے بلکتے فلسطینی جو آٹے کی بوریوں کے لیے قطار میں کھڑے تھے، کو ظالم سیکیورٹی کنٹریکٹرز کی جانب سے بلا اشتعال گولیوں کا نشانہ بنتے دیکھا۔ اسرائیلی قابض فوج نے بھی امداد کے لیے قطار میں کھڑے فلسطینیوں کو گولی مارنے کا بھی ذکر کیا۔

تفصیلات کے مطابق اس نئے معاہدے میں اسرائیلی افواج کا شمالی غزہ کے کچھ حصوں سے انخلا بھی شامل ہے جہاں اسرائیل نے اپنا کنٹرول مضبوط کیا ہے۔ لیکن جب تک یہ انخلا حقیقت میں نہیں ہوتا، تب تک اس پر یقین کرنا مشکل ہے کیونکہ اسرائیل نے آہستہ آہستہ غزہ کی آبادی کو چھوٹے ’محفوظ‘ علاقوں تک محدود کردیا ہے اور ان پر بھاری بموں اور میزائلز برسائے ہیں۔

اگرچہ اسرائیلی افواج کے حملوں میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 57 ہزار بتائی جاتی ہے جن میں 12 ہزار بچے بھی شامل ہیں لیکن کچھ محققین کے نزدیک شہدا کی تعداد اس سے کئی زیادہ ہے۔ حتیٰ کہ اسرائیلی کابینہ کے رکن نے ’غزہ میں 18 لاکھ لوگوں‘ کا ذکر کیا حالانکہ اکتوبر 2023ء سے پہلے یہاں کی آبادی 20 یا 22 لاکھ کے درمیان بتائی جاتی تھی۔ اگر آبادی میں واقعی اتنی کمی آئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ اموات کی اصل تعداد اس سے چار گنا زیادہ ہے جو سرکاری طور پر بتائی جا رہی ہے۔

یہ صرف تصویر کا ایک رخ ہے۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے بنیادی انفرااسٹرکچر یعنی پانی، بجلی، سیوریج کے نظام، اسکول، ہسپتال اور تقریباً 80 فیصد گھروں کو تباہ کرنے کا اصل مقصد صرف ’حماس کا خاتمہ‘ نہیں ہے جیسا کہ اسرائیلی رہنما دعویٰ کرتے ہیں بلکہ یہ ایک گہرے مذموم ایجنڈے کو چھپانے کی کوشش ہے جس کے تحت وہ غزہ کو ناقابلِ رہائش بنا دیں گے جبکہ بہادر اور حوصلہ مند فلسطینیوں کے پاس نقل مکانی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچے گا۔

اسرائیلی افواج نے جس جارحیت سے طبی کارکنان، ڈاکٹرز، سرجنز، نرسز، پیرا میڈیکس، ایمبولینسز اور ہسپتالوں کو نشانہ بنایا ہے، اس سے اس نظریے کی تائید ہوتی ہے۔ وہ تعلیم یافتہ شہریوں جیسے پروفیسرز، اساتذہ، وکلا اور دیگر کمیونٹی لیڈران کو بھی نشانہ بنارہی ہے۔

گزشتہ 21 ماہ سے جاری یکطرفہ جنگ میں امریکا کی جانب سے فراہم کردہ ہتھیاروں جن میں ٹارگٹ سسٹم کے ساتھ طاقتور 500 پاؤنڈ بم بھی شامل ہیں، فلسطین کے زیادہ تر تعلیم یافتہ طبقے کا صفایا کرنے کے لیے استعمال کرتے دیکھا گیا ہے۔ ’دماغی قوت کے خاتمے‘ کے طویل مدتی اثرات، کئی ماہ بلکہ کئی سالوں تک ظاہر نہیں ہوں گے۔

غزہ کو تباہ کرنے اور ایران کے خلاف بلااشتعال جنگ چھیڑنے کے بعد، اپنے ملک میں نیتن یاہو کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ نیز گارڈین کے مطابق اسرائیلی پارلیمنٹ اور عدالت عظمیٰ تین ماہ کا وقفہ لے رہی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر نیتن یاہو جنگ بندی معاہدے پر رضامند ہوجاتے ہیں تو انہیں اپنے اتحادیوں جو ان سے بھی زیادہ نسل کش ہیں، کی جانب سے عدم اعتماد کے ووٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اسی طرح انہیں کئی ہفتوں تک عدالتی کارروائیوں میں نہ پڑنے کی بھی مہلت ملے گی جبکہ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ ان کی فوجی مہم نے طول اسی لیے پکڑا کیونکہ وہ عدالتی مقدمات سے بچنا چاہتے تھے۔

مشرق وسطیٰ میں متزلزل آمرانہ حکومتیں سکون کا سانس لے سکتی ہیں۔ وہ عوامی سطح پر فلسطین کے حوالے سے ایک مؤقف اختیار کرتی ہیں جبکہ نجی طور پر وہ توانائی کی فراہمی سمیت تجارت کو جاری رکھتے ہوئے اور ایران اور یمن کے حوثیوں کی جانب سے اسرائیل پر داغے گئے میزائلز اور ڈرونز کو اپنی فضائی حدود میں روکنے کی امریکا کو اجازت دیتے ہیں، یوں ان ممالک نے صہیونی ریاست کی مدد کی۔ حکمرانوں اور رعایا کے درمیان خلیج واضح ہے۔ جہاں ایک جانب حکمران طاقت سے متاثر ہیں وہیں عوام میں غصہ پایا جاتا ہے۔

بھوک سے پریشان حال غزہ کے شہری یقینی طور پر نسل کشی کو روکنے کے حوالے سے ہونے والی کسی بھی کوشش کا خیرمقدم کریں گے جن میں سے تقریباً تمام نے اپنے خاندانوں اور اپنے گھروں کی تباہی کی صورت میں مصائب کا سامنا کیا ہے۔

اب یہ دیکھنا اہم ہے کہ 60 روزہ جنگ بندی کے بعد ان فلسطینیوں کے لیے کیا سوچا گیا ہے؟ کیا غزہ کی تعمیر نو کا عرب منصوبہ اب بھی زیرِ غور ہے یا خودپسند ٹرمپ ’غزہ ریویرا‘ منصوبے کو ہی آگے لے کر چلیں گے؟

گزشتہ کئی ماہ سے غزہ کے شہریوں کو لیبیا جتنی دوری پر منتقل کرنے کے منصوبوں کی بازگشت ہورہی ہے۔ جب بھی ٹرمپ یا دیگر سے اس حوالے سے بات کی جاتی ہے تو ان کا مؤقف یہی ہوتا ہے فلسطینیوں کو جبراً منتقل نہیں کیا جائے گا بلکہ وہ رضاکارانہ طور پر اپنی منشا سے نقل مکانی کریں گے۔

جہاں کبھی آپ کا گھر ہوا کرتا تھا، اب وہاں کھنڈرات ہوں، اسکول نہ ہو، ہسپتال نہ ہوں اور نہ ہی کوئی سول انفرااسٹرکچر اپنی جگہ پر برقرار رہا ہو، نہ کھانے کو کچھ ہو نہ ہی پینے کو اور اسرائیلی ڈرونز اور جنگی جہاز مسلسل آپ کے سروں پر منڈلاتے رہیں تو ایسے میں تعجب ہوتا ہے کہ نقل مکانی جبری نہیں بلکہ رضاکارانہ ہوگی۔

فلسطینیوں کا عزم پہلے بھی دنیا کو ششدر کرچکا ہے۔ کیا 21 ماہ تک مسلسل ناقابلِ بیان تکالیف برداشت کرنے کے بعد بھی وہ ایک بار پھر اسی حوصلے کا مظاہرہ کرپائیں گے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عباس ناصر

عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 5 دسمبر 2025
کارٹون : 4 دسمبر 2025