پاکستان نے اقوام متحدہ کو افغانستان سے بڑھتے ہوئے دہشتگردی کے خطرات سے آگاہ کردیا
پاکستان نے اقوام متحدہ کو آگاہ کیا ہے کہ اس بات کے مستند شواہد موجود ہیں کہ دہشت گرد گروہوں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے)، اور مجید بریگیڈ کے درمیان بڑھتا ہوا گٹھ جوڑ قائم ہو چکا ہے، جو ملک کے اسٹریٹجک انفرااسٹرکچر اور ترقیاتی منصوبوں کو نشانہ بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ یہ گروہ افغانستان کے غیر حکومتی علاقوں سے کام کر رہے ہیں۔
ان کا یہ انتباہ ایسے وقت میں آیا ہے جب حالیہ ہفتوں میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی دیکھی گئی ہے۔
28 جون کو شمالی وزیرستان میں ایک خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی فوجی قافلے سے ٹکرا دی تھی جس کے نتیجے میں 16 فوجی شہید اور متعدد شہری زخمی ہوئے، چند دن بعد باجوڑ میں سڑک کنارے نصب بم کے دھماکے میں اسسٹنٹ کمشنر سمیت 5 اعلیٰ حکام شہید ہو گئے تھے۔
پاکستانی مندوب عاصم افتخار احمد نے نشاندہی کی کہ ان حملوں میں وہ جدید اسلحہ اور ساز و سامان استعمال ہو رہا ہے جو بین الاقوامی افواج کے 2021 میں افغانستان سے انخلا کے بعد وہاں چھوڑ دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ہتھیار افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں کی جانب سے پاکستان پر حملوں کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں، جن میں گزشتہ دو ہفتوں کے حملے بھی شامل ہیں۔
پاکستانی سفیر نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی تعداد تقریباً 6 ہزار ہے، اقوام متحدہ کی جانب سے نامزد سب سے بڑا دہشت گرد گروہ ہے جو افغان سرزمین سے کام کر رہا ہے، اور یہ نہ صرف پاکستان بلکہ علاقائی اور عالمی استحکام کے لیے بھی خطرہ ہے۔
انہوں نے افغانستان میں سرگرم دیگر گروہوں کی بھی نشاندہی کی جن میں داعش-خراسان، القاعدہ، اور مختلف بلوچ علیحدگی پسند گروہ شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ افغانستان دوبارہ ایسے دہشت گردوں کی آماج گاہ نہ بنے جو اپنے ہمسایوں اور وسیع تر عالمی برادری کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں، انہوں نے اقوام متحدہ اور علاقائی طاقتوں پر زور دیا کہ وہ ان عناصر کے خلاف کارروائی کریں جو اس خطے میں دوبارہ تنازع کو ہوا دے سکتے ہیں۔
سیکریٹری سطح کے مذاکرات
ادھر، کابل اور اسلام آباد کے درمیان پیر کو پہلی بار ایڈیشنل سیکریٹری سطح کے مذاکرات ہوئے جو وزیر خارجہ اسحٰق ڈار کے اپریل میں افغانستان کے دورے کے دوران طے پانے والے معاہدے کے تحت منعقد ہوئے۔
پاکستانی وفد کی قیادت ایڈیشنل سیکریٹری (افغانستان و مغربی ایشیا) سفیر سید علی اسد گیلانی نے کی، جب کہ افغان وفد کی قیادت افغان وزارت خارجہ کے فرسٹ پولیٹیکل ڈویژن کے ڈائریکٹر جنرل مفتی نور احمد نور نے کی۔ دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق مذاکرات میں تجارت اور ٹرانزٹ تعاون، سیکیورٹی، اور رابطہ کاری کے امور پر بات چیت ہوئی۔
دونوں فریقین نے دہشت گردی کو خطے کے امن کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ سیکیورٹی مسائل کے حل کے بغیر خطے کی ترقی ممکن نہیں۔
پاکستانی وفد نے اس بات پر زور دیا کہ افغان سرزمین پر سرگرم دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کی ضرورت ہے، یہ گروہ نہ صرف سیکیورٹی کو متاثر کرتے ہیں بلکہ علاقائی ترقی میں بھی رکاوٹ بنتے ہیں۔
ملاقات میں تجارتی فروغ کے اقدامات کا بھی جائزہ لیا گیا جن میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت، 10 فیصد پروسیسنگ فیس کی خاتمہ، انشورنس گارنٹی کی فراہمی، اسکیننگ و جانچ کی کمی اور ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کا فعال ہونا شامل ہے۔











لائیو ٹی وی