حجاب کے احکامات خاص ازواج مطہرات کیلئے تھے، عام مسلم خواتین کے لیے نہیں، حمزہ عباسی
اداکار حمزہ علی عباسی کے ایک پرانے انٹرویو کا کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے جس میں وہ حجاب سے متعلق قرآنی احکامات کو صرف ازواجِ مطہرات کے لیے مخصوص قرار دیتے ہیں۔
ان دنوں سوشل میڈیا پر حمزہ علی عباسی کے چار ماہ پرانے پوڈکاسٹ کا ایک کلپ وائرل ہو رہا ہے، جس میں وہ اسلام میں حجاب کے تصور پر اپنی رائے دیتے نظر آتے ہیں۔
پوڈکاسٹ میں اداکار نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر کوئی خاتون اپنے سر کو چادر سے ڈھانپتی ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے اور اگر کوئی خاتون چہرے کو بھی اس نیت سے چادر سے ڈھانپتی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور وہ اس کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتی ہے، تو یہ بھی بہت اچھی بات ہے اور اسے ضرور ثواب ملے گا۔
حمزہ علی عباسی کے مطابق لیکن کیا چہرہ اور سر ڈھانپنا فرض ہے؟ جس تشریح پر ان کا یقین ہے، یہ فرض نہیں ہے، اگر کوئی کرے تو بہت اچھی بات ہے لیکن یہ فرض نہیں ہے۔
حمزہ علی عباسی نے کہا کہ پردے اور حجاب کی بحث کے لیے تین جگہوں سے حوالے لیے جاتے ہیں، دو سورۃ احزاب سے اور ایک سورۃ نور سے۔
ان کے مطابق سورۃ احزاب میں ایک جگہ پیارے نبی ﷺ کی ازواج کو یہ تعلیمات دی گئی ہیں کہ وہ نامحرم سے پردے کے پیچھے سے بات کریں اور گھر سے باہر نہ نکلیں۔
ان کے مطابق یہ تعلیمات قرآن کی روشنی اور صحابہ کرام کے عمل سے ثابت ہے کہ یہ نبی کریم ﷺ کی ازواج کے لیے خاص تھیں، اسی طرح ان کے لیے یہ حکم بھی تھا کہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد وہ دوبارہ شادی نہیں کرسکتیں، اگر ان احکامات کو عام عورتوں پر لاگو کیا جائے تو پھر ان کے لیے بھی شوہروں کی وفات کے بعد شادی کرنا جائز نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ پردے اور حجاب سے متعلق یہ احکامات ازواجِ مطہرات کے لیے تھے، جو قرآن کی تعلیمات اور احکامات کی نوعیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خاص ان کے لیے تھے، عام مسلمان عورتوں کے لیے نہیں۔
انہوں نے کہا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ اے رسول کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اور اسی وجہ سے خاص حالات میں ان پر اضافی پابندیاں عائد کی گئیں۔
اداکار نے کہا کہ وہ خاص حالات اس وقت پیدا ہوئے تھے جب سیاسی کشیدگی کی وجہ سے نبی کریم ﷺ کے اہلِ خانہ کو نشانہ بنایا جا رہا تھا، اسی لیے یہ احکامات دیے گئے جو کہ خاص ازواجِ مطہرات کے لیے تھے۔
انہوں نے کہا کہ دوسری جگہ، غیر معمولی حالات میں مسلمان عورتوں کو چہرے پر چادر ڈالنے کا حکم دیا گیا کیونکہ اس وقت کے منافقین مسلمان عورتوں کو ہراساں کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب تم رات کو رفع حاجت کے لیے نکلو تو اپنے آپ کو ڈھانپ لیا کرو تاکہ پہچانی جاؤ، کیونکہ وہ تمہیں تنگ کرتے ہیں اور پھر عذر یہ پیش کرتے ہیں کہ ہم نے سمجھا کہ یہ ہماری عورتیں ہیں، اس لیے تم اپنے اوپر بڑی بڑی چادریں ڈال لیا کرو اور اگر اس کے باوجود وہ تمہیں چھیڑیں تو انہیں عبرتناک سزا دی جائے۔
ان کے مطابق ان کا مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ یہ دونوں صورتحال بہت مختلف تھیں اور انہی کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ احکامات جاری کیے گئے، جو کہ عام مسلمان عورتوں کے لیے نہیں تھے تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عام عورتوں اور مردوں کو احکامات کہاں دیے گئے؟ تو وہ احکامات سورۃ نور میں دیے گئے ہیں۔
اداکار نے بتایا کہ اس میں حکم دیا گیا ہے کہ جب مرد و عورت کی ملاقات ہو تو ان کی آنکھوں میں حیا ہونی چاہیے، وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور تیسرا حکم خاص عورتوں کے لیے ہے کہ اگر وہ بناؤ سنگھار کریں تو چادر سے اپنے سینے کو ڈھانپ لیں تاکہ ان کے خدوخال ظاہر نہ ہوں، بس یہی احکامات دیے گئے ہیں، اس کے بعد اگر کوئی اپنا سر یا چہرہ ڈھانپتا ہے تو یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے اسی نیت کے مطابق خوش ہوگا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سورۃ احزاب کی جن آیات میں پردے کا حکم ہے، اگر ان سے پہلے کی گیارہ آیات کا مشاہدہ کیا جائے تو سب کو سمجھ آجائے گا کہ یہ احکامات صرف ازواجِ مطہرات کے لیے تھے۔
اداکار کے مطابق مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان سورتوں کا ترجمہ پڑھیں، اس سے انہیں بہت کچھ معلوم ہو جائے گا۔












لائیو ٹی وی