امریکا کا یونیسکو سے انخلا: عالمی اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے چین اس سےکیا فائدہ اٹھا سکتا ہے؟
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ٹیمی بروس نے اس ہفتے اعلان کیا کہ ’یونیسکو میں شمولیت برقرار رکھنا امریکا کے قومی مفاد میں نہیں ہے‘۔ یہ اعلان کسی طور حیرت میں مبتلا نہیں کرتا۔ اس سے قبل بھی امریکا ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی صدارت کے دوران (بلکہ اس سے بھی پہلے) اقوام متحدہ کے ثقافتی اور تعلیمی ادارے سے الگ ہوگیا تھا لیکن جو بائیڈن کی حکومت میں دوبارہ شمولیت اختیار کی گئی تھی۔
حالیہ فیصلہ کثیر الجہتی اداروں یا مجموعی طور پر سوفٹ پاور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے عدم اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ یونیسکو پر ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے سماجی ترقی کے اہداف سے ’ہٹ کر توجہ مرکوز‘ کرنے کے علاوہ ’تفرقہ وارانہ سماجی اور ثقافتی وجوہات‘ کو فروغ دینے کا الزام لگایا گیا ہے جسے ٹیمی بروس نے ’امریکا کی پہلی خارجہ پالیسی کے خلاف بین الاقوامی ترقی کے لیے ایک عالمگیر، نظریاتی ایجنڈا‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔
یونیسکو کے مینڈیٹ میں بھارت میں تاج محل، آسٹریلیا میں گریٹ بیریئر ریف اور چین میں زیکسیا امپیریل ٹومبس (جسے حال ہی میں ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا ہے) کی طرح متنوع ثقافتی ورثے کے مقامات کی حفاظت کرنا شامل ہے۔ چین کی بات کریں تو اقوام متحدہ کی ایک اور ایجنسی سے امریکا کی علیحدگی اس کے سب سے بڑے حریف چین کو موقع فراہم کرتی ہے۔ ٹرمپ کے تازہ ترین اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا، ’یہ یونیسکو سے امریکا کا تیسری بار انخلا ہے اور ملک نے طویل عرصے سے بقایا جات ادا نہیں کیے ہیں۔ ایک بڑے ملک کو ایسا نہیں کرنا چاہیے‘۔
اگرچہ یونیسکو کے بجٹ میں امریکا کا حصہ 8 فیصد ہے لیکن اس کے بقایا جات درحقیقت لاکھوں میں ہیں۔ چونکہ تنظیم سے دستبرداری اور پھر دوبارہ شمولیت پہلا واقعہ نہیں اس لیے یونیسکو کا کہنا ہے کہ اس نے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے انتظامات کیے ہیں تاکہ ایجنسی اپنا کام جاری رکھ سکے۔ یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل کے مطابق، ’امریکا کی مالیاتی شراکت میں کمی کے رجحان کو پورا کردیا گیا ہے‘۔ درحقیقت اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ 2018ء سے نجی گروہوں کی جانب سے عطیات دوگنا ہوچکے ہیں۔
رکن ممالک کی جانب سے یونیسکو میں شراکت شاید سافٹ پاور کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے اور یہ کیا کر سکتی ہے۔ یونیسکو کے پاس اہم ثقافتی اور قدرتی مقامات کی حفاظت کا کام ہے جو ممالک کو اپنی تاریخ کے اپنے ورژن کو فروغ دینے اور دنیا انہیں کیسے دیکھتی ہے اس کی تشکیل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی اگر چین جوکہ ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے، سوفٹ پاور کے اس پلیٹ فارم سے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہے تاکہ وہ امریکا کے انخلا کے بعد اپنے عالمی نظریے کو فروغ دے سکے۔ یونیسکو کا حصہ ہونے کی حیثیت سے ممالک محض اپنے ورثے کے تحفظ سے زیادہ کا کام کرتے ہیں۔
نیویارک ٹائمز کی ایک حالیہ رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ کس طرح چین نے ’عالمی ثقافتی ورثہ کے عہدوں کے لیے بھی بھرپور لابنگ کی ہے اور ثقافتی لحاظ سے اہم ترین مقامات والے ملک اٹلی کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش کی ہے‘۔
نیویارک ٹائمز کی اسی رپورٹ نے مزید سوالات کو جنم دیا ہے۔ اس میں ذکر کیا گیا ہے کہ چینی حکام نے لہاسا کے ایک محل میں دو چینی طرز کی عمارتیں تعمیر کیں جوکہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ ہے اور دلائی لامہ کے پیروکاروں کے لیے گہری روحانی معنی رکھتا ہے۔ عموماً ممالک کو ایسے اہم مقامات پر کوئی تبدیلی کرنے سے پہلے یونیسکو کو بتانا ہوتا ہے لیکن چین نے ایسا نہیں کیا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یونیسکو کے لیے دیگر سائٹس پر غور کیا جا رہا ہے جو سنکیانگ جیسے شورش زدہ علاقوں میں ہیں۔ وہاں کے بہت سے مقامی لوگوں کو خدشہ ہے کہ ان مقامات کو سیاحتی مقامات میں تبدیل کرنے سے ان کی مذہبی اور ثقافتی روایات کو تجارتی بنانے سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔
جیسا کہ امریکا اقوام متحدہ جیسی بین الاقوامی تنظیموں میں اپنا کردار کم کر رہا ہے، یہ گروپ تبدیل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ابھرتی ہوئی معیشتیں اس موقع کو اپنے مفادات کو فروغ دینے اور قیادت کے خالی عہدوں کو اپنے ہی ممالک کے لوگوں سے پُر کرنے کے امکان کے طور پر دیکھیں گی۔ یونیسکو کے معاملے میں یہ ایک دلچسپ سوال پیدا کرتا ہے کہ کیا ’مرکزی دھارے‘ کی تاریخ اور اس کے بیانیے کا تصور تبدیل ہوجائے گا جیسے مخصوص مغربی اور سفید فام سمجھا جاتا ہے؟
کچھ لوگ صورت حال کو منفی انداز میں دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ بین الاقوامی اداروں کے نام اور ٹائٹل خریدے جا سکتے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر وہ طاقت یا عزت جو یونیسکو جیسے گروپوں کے کنٹرول میں رہنے سے حاصل ہوتی ہے، وہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔
زیادہ تر لوگوں کو احساس ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد پیدا ہونے والا لبرل ورلڈ آرڈر جس سے یہ تنظیمیں ابھریں، اب ختم ہو چکا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اس نظام کے ان حصوں کا کیا ہوگا جو ابھی تک موجود ہیں جیسے بین الاقوامی تنظیمیں، معاہدے و دیگر۔ کچھ لوگ اب بھی ان پر یقین رکھتے ہیں لیکن بہت سے دیگر لوگ خاص طور پر آنے والی نسلوں کے لیے یہ نظام پرانا ہوچکا ہے۔
اب ہم سب یہ دیکھنے کے منتظر ہیں کہ کس قسم کا نیا ورلڈ آرڈر اپنی جگہ بناتا ہے۔ اس دوران انسان کو یہ سوچنا چاہیے کہ ہماری دنیا کے کون سے حصے باقی رہیں گے اور کون سے حصے ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔













لائیو ٹی وی