پاک-امریکا تعلقات کی بحالی امریکی پالیسی میں تبدیلی کا نتیجہ ہے یا ٹرمپ کا ذاتی فیصلہ؟
پاکستان کے وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ واشنگٹن اور ان کی امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات کو دونوں ممالک کے درمیان تیزی سے بہتر ہونے والے تعلقات کی ایک اور علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو پہلے کبھی اتحادی ہوا کرتے تھے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے وائٹ ہاؤس میں پاکستان کے آرمی چیف کی میزبانی کیے جانے کے تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد دونوں ممالک کے اعلیٰ سفارت کاروں کے درمیان یہ ملاقات ہوئی ہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب امریکا کے کسی صدر نے پاکستان کے ایسے فوجی سربراہ کو مبارکباد دی جو وقت کے سربراہ مملکت بھی نہیں۔
اس نے دونوں ممالک کے تعلقات کی ڈرامائی انداز میں بحالی کا اشارہ دیا جو گزشتہ 4 سالوں سے جمود کا شکار تھے۔ یہ یقیناً ایک مثبت پیش رفت تھی۔ ابھی تک پاک-امریکا تعلقات کے نئے دور کی صورت پوری طرح سے سامنے نہیں آ پائی ہے۔ اس وقت یہ اسٹریٹجک تعلقات سے زیادہ لین دین کا معاملہ لگتا ہے۔
یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی واشنگٹن میں ادارہ جاتی پالیسی کے جائزے کا نتیجہ ہے یا بین الاقوامی اہم معاملات کے بارے میں امریکی صدر کے متعصبانہ انداز کو دیکھتے ہوئے، یہ محض ٹرمپ کے ذاتی اقدام کا نتیجہ ہے؟ پاکستان ایک ایسی امریکی انتظامیہ سے ڈیل کررہا ہے جو تیزی سے بدلتی ترجیحات کی وجہ سے مشکوک ساکھ رکھتی ہے۔
امریکی صدر کو امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کرکے پاکستان کی عسکری اور سویلین قیادت نے جس طرح ان کی انا کو بڑھاوا دیا ہے، اس سے امریکی انتظامیہ خوش نظر آتی ہے لیکن اس طرح کے اقدامات کے نتائج 7 دہائیوں پر محیط نازک دوطرفہ تعلقات کے نشیب و فراز پر مختصر ہوتے ہیں۔
2021ء میں افغانستان میں امریکا کی دو دہائیوں طویل جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی پاک-امریکا تعلقات مکمل واضح ہوگئے تھے۔ ان تعلقات کو پہلے اسٹریٹجک طور پر پیش کیا گیا لیکن یہ ایک لین دین کے معاملے میں بدل گیا۔ شاید مختلف امریکی محکموں میں سب سے بڑی الجھن اس بات کے گرد گھومتی ہے کہ پاکستان سے کیسے بات چیت کی جائے؟ ایک دوست کے طور پر یا دشمن کے طور پر؟ 9/11 کے بعد سے دونوں ممالک نے بیک وقت دوست اور دشمن دونوں کے طور پر کام کیا تو ان ممالک کو ’فرینمی‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔
افغانستان میں امریکا کی تذلیل کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا گیا۔ جو بائیڈن کی انتظامیہ کے دوران تعلقات انتہائی نچلی سطح پر چلے گئے۔ افغان جنگ کے بعد بدلتی ہوئی علاقائی جغرافیائی سیاست نے افواج کی نئی صف بندی کی۔ امریکا اور بھارت قریبی اتحادی بن گئے جبکہ پاکستان نے چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کیا۔ ان نئی شراکتوں نے خطے میں بدلتے ہوئے طاقت کے توازن کو ظاہر کیا۔
چین کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تزویراتی تعلقات اور واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے بھی پاک-امریکا تعلقات کو پیچیدہ بنایا۔ اگرچہ پاکستان نے امریکا کے ساتھ سفارتی رابطہ رکھا لیکن ان کے تعلقات سرد اور غیر فعال ہوگئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی امریکا کا بھارت کی جانب جھکاؤ جو خطے میں واشنگٹن کے اسٹریٹجک اتحادی کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا، نے بھی پاک-امریکا تعلقات کو متاثر کیا۔
ایک طویل جمود کے بعد برف اس وقت پگھلی کہ جب ٹرمپ دوسری بار وائٹ ہاؤس واپس آئے۔ رواں سال مارچ میں کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے اپنے پہلے خطاب میں امریکی صدر نے اگست 2021ء میں کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے مہلک حملے کے ماسٹر مائنڈ کو پکڑنے پر پاکستان کی تعریف کی جس میں ایک درجن سے زائد امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
اس نے ظاہر کیا کہ تعلقات میں نچلی سطح پر ہونے کے باوجود دونوں ممالک نے انسداد دہشتگردی کے معاملے پر تعاون جاری رکھا۔ عسکریت پسند گروپ داعش کے ایک اہم رہنما کی گرفتاری جو افغانستان میں امریکی فوجیوں کے قتل میں ملوث تھا، ایسی ہی ایک مثال تھی۔ انسداد دہشتگردی سے تعلقات کی جمی برف پگھلنے میں مدد ملی۔
حال ہی میں سینٹ کام کے سربراہ جنرل مائیکل ای کوریلا نے تفصیل سے بتایا کہ کس طرح تعاون سے دہشتگرد کو پکڑا۔ جنرل کریلا نے واشنگٹن میں ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے اپنی گواہی میں کہا، ’وہ (پاکستان) اس وقت انسداد دہشتگردی کی ایک متحرک جنگ میں ہیں جبکہ وہ انسداد دہشتگردی میں ایک غیرمعمولی شراکت دار رہے ہیں‘۔
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ایک اور اہم پیش رفت پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ تنازع میں امن ساز کے طور پر امریکا کے کردار سے ہوئی۔ صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ یہ امریکی مداخلت تھی جس نے دونوں ممالک کے درمیان جوہری جنگ کو روکا حالانکہ بھارت نے بیرونی دباؤ کے سامنے جھکنے سے انکار کیا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ پہلا موقع ہو کہ جب امریکی انتظامیہ نے امن کی سفارتکاری میں تجارت کا فائدہ اٹھایا ہو۔
اس واقعے نے پاک-بھارت تنازع پر واشنگٹن کے مؤقف میں نمایاں تبدیلی کی عکاسی کی۔ حالیہ دنوں میں امریکا نے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے سفارت کاری سے ہٹ کر دو طرفہ تعلقات کو آسان بنانے میں بہت کم دلچسپی ظاہر کی تھی۔ لیکن جب صدر ٹرمپ نے اس معاملے میں عوامی سطح پر سختی سے بات کی تو یہ دو جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ غیرمساوی سلوک کرنے اور کسی کا ساتھ نہ دینے کی معمول کی امریکی پالیسی کے منافی تھا۔ کچھ تجزیہ کار اس تبدیلی کو ٹرمپ انتظامیہ کی بھارت کی طرف امریکی جھکاؤ کو دوبارہ درست کرنے کے موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔
بھارت یقینی طور پر خوش نہیں ہے کیونکہ امریکا جسے وہ اسٹریٹجک اتحادی سمجھتا ہے، اس نے ثالث کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔ لیکن دو متحارب ہمسایوں کے درمیان بڑھتی ہوئی دراڑ کو ختم کرنے میں بیرونی طاقت کا کردار محدود ہوتا ہے۔ پاکستان کی یہ توقعات کہ واشنگٹن اسلام آباد اور نئی دہلی کو مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد کر سکتا ہے، غیر حقیقی ہیں۔
ماضی میں پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات زیادہ تر قلیل مدتی سلامتی کی ضروریات یا مشترکہ مسائل پر مرکوز رہے ہیں۔ لیکن قیمتی زمینی و دیگر نایاب معدنیات میں بڑھتی ہوئی دلچسپی بھی ٹرمپ انتظامیہ کی پاکستان کے حوالے سے پالیسی کی وضاحت کرتی ہے۔ متعدد امریکی کمپنیز نے مبینہ طور پر پاکستان کے ابھرتے ہوئے معدنیات کے شعبے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ تاہم جن علاقوں میں یہ معدنیات پائی جاتی ہیں وہاں حفاظت اور سلامتی کے مسائل غیرملکی سرمایہ کاری مشکل بنا دیتے ہیں۔
پاکستان امریکا کے ساتھ ٹیرف (درآمدات پر ٹیکس) معاہدہ کرنے کے بھی قریب ہے جو اسے دیگر ممالک پر برتری دے سکتا ہے۔ ہر سال پاکستان امریکا کو 5 ارب ڈالرز سے زائد مالیت کی اشیا برآمد کرتا ہے جو پاکستان کی کُل برآمدات کا تقریباً 18 فیصد بنتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر برآمدات تقریباً 75 سے 80 فیصد ٹیکسٹائل مصنوعات ہیں۔
پاکستان کے لیے امریکا ایک اہم تجارتی اور اقتصادی شراکت دار ہے۔ لیکن اس میں بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ کہیں اسٹریٹجک اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کے عوض یہ ملک امریکا کے علاقائی تنازعات کا آلہ کار نہ بن جائے۔ یہ خدشات اب اور بھی زیادہ سنگین ہیں کیونکہ خطے میں تناؤ بڑھ رہا ہے اور اس میں اکثر واسطہ یا بالواسطہ امریکا ملوث ہوتا ہے۔ پاکستان کو خود کو امریکا کی جنگوں میں جھونکنے سے گریز کرنا چاہیے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔












لائیو ٹی وی