• KHI: Sunny 25.1°C
  • LHR: Partly Cloudy 19.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 20.8°C
  • KHI: Sunny 25.1°C
  • LHR: Partly Cloudy 19.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 20.8°C

بھارت کی جانب سے 25 کتابوں پر پابندی کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بک شاپس پر چھاپے

شائع August 8, 2025
فروری میں جاری ایک ملتے جلتے حکم کے بعد حکام نے کتابوں کی دکانوں اور گھروں سے اسلامی لٹریچر بھی ضبط کیا تھا — فائل فوٹو: اے ایف پی
فروری میں جاری ایک ملتے جلتے حکم کے بعد حکام نے کتابوں کی دکانوں اور گھروں سے اسلامی لٹریچر بھی ضبط کیا تھا — فائل فوٹو: اے ایف پی

بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں پولیس نے جمعرات کو کتابوں کی دکانوں پر چھاپے مارے، یہ کارروائی ان 25 کتابوں پر پابندی کے بعد کی گئی جن میں سے ایک بُکر پرائس ونر اروندھتی رائے کی بھی ہے، حکام کا کہنا ہے کہ یہ کتابیں ’علیحدگی پسندی کو ہوا دیتی ہیں‘۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ چھاپے اس وقت مارے گئے جب بھارتی حکومت نے مصنفین پر الزام لگایا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں ’جھوٹا بیانیہ‘ پھیلا رہے ہیں اور ’نوجوانوں کو ریاست کے خلاف گمراہ کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں‘۔

پولیس نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ ’اس آپریشن کا مقصد علیحدگی پسند نظریات کو فروغ یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے والے مواد کو نشانہ بنانا ہے‘، بیان میں مزید کہا گیا کہ ’امن اور سالمیت برقرار رکھنے کے لیے عوام سے تعاون کی درخواست کی جاتی ہے‘۔

فروری میں جاری ایک ملتے جلتے حکم کے بعد حکام نے کتابوں کی دکانوں اور گھروں سے اسلامی لٹریچر بھی ضبط کیا تھا۔

کتابوں پر پابندی کا حکم منگل کو جاری کیا گیا، جو اس دن کے ساتھ ملا جب نئی دہلی نے براہِ راست حکمرانی مسلط کرنے کی چھٹی سالگرہ منائی، اگرچہ اس پابندی کو عوامی سطح پر آنے میں کچھ وقت لگا۔

میر واعظ عمر فاروق نے کہا کہ اس طرح کے آمرانہ اقدامات کرنے والوں کا یہ قدم دراصل ان کے عدم اعتماد اور محدود فہم کو ہی بے نقاب کرتا ہے۔

انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر لکھا کہ ’علما اور نامور مؤرخین کی کتابوں پر پابندی تاریخی حقائق اور کشمیری عوام کی جیتی جاگتی یادوں کو مٹا نہیں سکتی‘۔

پابندی کی فہرست میں 25 ایسی کتابیں شامل ہیں جو حکام کے مطابق ’جھوٹا بیانیہ اور علیحدگی پسندی کو فروغ دیتی ہیں‘، ان میں اروندھتی رائے کی 2020 میں شائع ہونے والی مضامین کی کتاب ’آزادی: فریڈم، فاشزم، فکشن‘ بھی شامل ہے۔

63 سالہ اروندھتی رائے بھارت کی سب سے مشہور زندہ مصنفین میں سے ایک ہیں، لیکن ان کی تحریروں اور سرگرمیوں، خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت پر ان کی سخت تنقید نے انہیں ایک متنازع شخصیت بنا دیا ہے۔

دیگر ممنوعہ کتابوں میں ممتاز ماہرِ قانون اے جی نورانی اور لندن اسکول آف اکنامکس میں سیاسیات کے پروفیسر سومنترہ بوس کی تصانیف بھی شامل ہیں۔

مورخ صدیق واحد نے کہا کہ یہ حکم آئین کی خلاف ورزی ہے ’جو اظہارِ رائے اور تقریر کی آزادی کی اجازت دیتا ہے‘، ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پابندی کی فہرست میں کئی ایسی کتابیں ہیں جو ایسے مصنفین اور اداروں نے شائع کی ہیں جن کی ساکھ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اپنے نتائج کے لیے شواہد، منطق اور دلائل فراہم کریں، کیا اب اس کی کوئی اہمیت نہیں رہی؟‘

کارٹون

کارٹون : 17 دسمبر 2025
کارٹون : 16 دسمبر 2025