کم تنخواہوں، کام کے بوجھ کے سبب نرسوں کی بیرون ملک ہجرت پاکستان کیلئے اہم مسئلہ
پاکستان کو نرسوں کی شدید کمی کا سامنا ہے اور ملک نرسنگ کے فارغ التحصیل افراد کی انتہائی کم تعداد پیدا کرتا ہے، لیکن غیر موافق عوامل (کم تنخواہیں، مراعات اور زیادہ کام کے بوجھ) کی وجہ سے ان پیشہ ور افراد کی سالانہ بیرون ملک ہجرت کی شرح زیادہ ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بات آغا خان یونیورسٹی (اے کے یو) میں جاری کیے گئے ایک مطالعے میں آگاہی کے لیے کہی گئی ہے۔
مطالعے میں کہا گیا ہے کہ بیرون ملک پاکستانی پیشہ ور افراد میں نرسوں کی تعداد 0.4 فیصد ہے، اور 2019 سے 2024 کے درمیان ان کی سالانہ مرکب شرح نمو 54.2 فیصد رہی ہے، جو سب سے زیادہ ہے۔
مطالعے کا عنوان ’پاکستان کی نرسنگ ورک فورس، برآمد کے امکانات اور چیلنجز‘ ہے، جو پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) اور اے کے یو اسکول آف نرسنگ اینڈ مڈوائفری (ایس او این اے ایم) نے مشترکہ طور پر جاری کیا ہے۔
مطالعے کا مقصد نرسوں کی ملک کے لیے ترسیلات زر میں ممکنہ شراکت کا جائزہ لینا اور عالمی مارکیٹوں میں ان کی قبولیت میں رکاوٹیں تلاش کرنا تھا، اس میں ان کی مہارتوں کو بڑھانے اور مجموعی طور پر دیکھ بھال کے معیار کو بلند کرنے کے لیے حکمت عملی تجویز کی گئی ہے۔
اے کے یو، ایس او این اے ایم کی ڈین ڈاکٹر سلیمہ ولانی نے کہا کہ پاکستان سے نرسوں کی ہجرت کے پیچھے کشش اور دھکیلنے والے عوامل ہیں، ہمیں کھل کر بات کرنی چاہیے کہ کون سے عوامل ہمارے نرسوں کو ملک سے باہر جانے پر مجبور کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ہر 10 ہزار افراد کے لیے 5.2 نرسوں کی شرح ہے، جو عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی تجویز کردہ 10 ہزار افراد کے لیے 30 نرسوں کی تعداد سے بہت کم ہے۔
ڈاکٹر سلیمہ نے کہا کہ ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ کیا ہمارے نرسوں کو معاشرے اور صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں صحیح طور پر قدر دی جا رہی ہے؟
رپورٹ میں دو بڑے راستے تجویز کیے گئے ہیں، پہلا یہ کہ ایک مضبوط نرسنگ ورک فورس صحت مند آبادی کا باعث بنتی ہے، جو طویل المدتی اقتصادی استحکام کی بنیاد ہے، پاکستان سالانہ صرف 5 ہزار 600 نرسنگ گریجویٹس پیدا کرتا ہے اور بڑھتی ہوئی تعداد بیرون ملک جا رہی ہے۔
دوسرا، نرسوں کی تعلیم اور عالمی نقل و حرکت کو بہتر بنا کر پاکستان قیمتی ترسیلات زر میں اضافہ کر سکتا ہے اور عالمی سطح پر صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں اپنی پہچان بنا سکتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا صحت کا نظام زیادہ تر ڈاکٹروں پر منحصر ہے، جس کی وجہ سے نرسوں کی تعداد کم ہے اور سماجی و اقتصادی تفاوت کی بنا پر نرسوں کے حوالے سے منفی تاثر بھی پایا جاتا ہے۔
مطالعے کے مطابق جدید تکنیکی مہارتوں تک ناقص رسائی، نرسنگ اداروں کی نگرانی کا فقدان، اور محدود تخصص کے اختیارات پاکستانی نرسوں کی پیشہ ورانہ ترقی میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔
رپورٹ میں نرسوں کو روکنے کے لیے بہتر تنخواہیں، کیریئر کے واضح راستے اور میڈیا کی مہمات کے ذریعے نرسنگ کے پیشے کی شبیہ بہتر بنانے کی سفارش کی گئی ہے، اس کے علاوہ تعلیم، پالیسی اور عمل میں اصلاحات تجویز کی گئی ہیں، تاکہ بیرون ملک ملازمت کے عمل کو آسان بنایا جا سکے، مالی بوجھ کم کیا جا سکے اور پاکستانی نرسوں کو عالمی سطح پر فروغ دیا جا سکے۔
عالمی نقل و حرکت بہتر بنانے کے لیے خاص ممالک کے لیے مخصوص گروہوں کی تربیت، منظوری کے اختلافات کو دور کرنا، بیرون ملک درخواست دینے والوں کے مالی بوجھ کو کم کرنا، اور پاکستانی سفارتی مشنوں کی مدد پر زور دیا گیا ہے۔
پاکستان بزنس کونسل کی سینئر اکانومسٹ فرح ناز عطا نے کہا کہ یہ وقت ہے کہ پاکستان نرسنگ کے پیشے کو کم قدر سمجھنے کے بجائے ناگزیر سمجھے، اور اس مستقل چیلنج کو طویل المدتی اقتصادی فائدے میں بدلے۔
انہوں نے کہا کہ ان سفارشات پر عمل درآمد سے ہم ملک میں صحت کے معیار کو بلند کر سکتے ہیں، اپنے نرسوں کو بااختیار بنا سکتے ہیں، اور بیرونی ترسیلات زر کا ایک طاقتور ذریعہ کھول سکتے ہیں۔
آغا خان یونیورسٹی میں منعقدہ تقریب میں وزارت صحت، نرسنگ قیادت، اور دیگر اہم شراکت داروں کے نمائندے موجود تھے، جنہوں نے رپورٹ کی سفارشات کو مربوط کوششوں کے ذریعے آگے بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔













لائیو ٹی وی