پاکستان میں بینک بہتر آپریٹنگ حالات سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہیں، فچ

شائع August 19, 2025
پاکستانی بینک مالی طور پر لچکدار رہے، خراب قرضوں کا تناسب مارچ 2025 تک گھٹ کر 7.1 فیصد رہا — فائل فوٹو: رائٹرز
پاکستانی بینک مالی طور پر لچکدار رہے، خراب قرضوں کا تناسب مارچ 2025 تک گھٹ کر 7.1 فیصد رہا — فائل فوٹو: رائٹرز

فچ ریٹنگز نے پاکستان کے بینکاری شعبے کے بہتر امکانات کی پیشگوئی کی ہے، جس کی وجہ مستحکم ہوتے ہوئے میکرو اکنامک اشاریے، گرتی ہوئی مہنگائی اور معیشت کی بحالی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عالمی کریڈٹ ایجنسی کو توقع ہے کہ مالی سال 2027 میں پاکستان کی جی ڈی پی 3.5 فیصد تک بڑھے گی، جب کہ مہنگائی کی اوسط 5 فیصد رہے گی، جو حالیہ برسوں کے بحران اور بلند افراطِ زر سے ایک بڑی تبدیلی ہے۔

ایک مختصر تبصرے میں فِچ نے کہا کہ بینک بہتر آپریٹنگ حالات سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہیں، کیونکہ میکرو اکنامک دباؤ کم ہو رہا ہے، اس نے نشاندہی کی کہ معیشت کی بحالی اور کریڈٹ کی بہتر طلب سے کاروباری حجم میں اضافہ ہوگا جو قریبی مدت میں بینکنگ کارکردگی کو سہارا دے گا۔

یہ مثبت پیشگوئی پاکستان کی بہتر خودمختار کریڈٹ پروفائل کے بعد سامنے آئی ہے، جب فِچ نے اپریل 2025 میں پاکستان کی طویل المدتی جاری کنندہ ڈیفالٹ ریٹنگ (آئی ڈی آر) کو ’ٹرپل سی پلس‘ سے بڑھا کر ’بی مستحکم‘ کر دیا تھا، یہ اپ گریڈ جاری اصلاحات، مالیاتی بہتری اور زیادہ معاشی لچک کی عکاس تھی۔

ایجنسی نے بتایا کہ افراطِ زر، جو مئی 2023 میں 38 فیصد کی بلند ترین سطح پر تھی، جولائی 2025 میں گھٹ کر 4.1 فیصد رہ گئی، اس میں اہم کردار مئی 2024 سے شرح سود نصف ہو کر 11 فیصد تک آنے کا بھی رہا، زیادہ مستحکم بیرونی پوزیشن (جس کی خصوصیات کم کرنسی اتار چڑھاؤ اور کرنٹ اکاؤنٹ سرپلسز ہیں) نے بھی پائیدار بحالی کی بنیاد رکھی ہے۔

فِچ نے پیشگوئی کی کہ کم شرح سود اور بہتر میکرو اکنامک بنیادیں نجی شعبے کے کریڈٹ کی طلب کو بڑھائیں گی اور قرضوں و ڈپازٹس میں مستحکم ترقی لائیں گی، اس سے بینکاری شعبے کا عوامی شعبے پر انحصار کم ہوگا، کیونکہ فی الحال نجی شعبے کا کریڈٹ جی ڈی پی کے صرف 9.7 فیصد کے برابر ہے، کریڈٹ کی گہرائی اور تجارتی قرضہ جات بڑھانے کے لیے اصلاحات ناگزیر ہوں گی۔

تاہم ایجنسی نے خبردار کیا کہ بہتری کے باوجود پاکستان کا آپریٹنگ ماحول کمزور ہی ہے، بینکوں کی کریڈٹ ویلیو اب بھی حکومت سے جڑی رہے گی، کیونکہ ان کا انحصار بڑی مقدار میں حکومتی سیکیورٹیز اور ریاستی اداروں کی جانب سے سے لیے گئے قرض پر ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستانی بینک مالی طور پر لچکدار رہے ہیں، شعبے کا خراب قرضوں کا تناسب مارچ 2025 تک گھٹ کر 7.1 فیصد رہا، جو 2023 کے آخر میں 7.6 فیصد تھا، یہ کمی 26 فیصد کے مضبوط قرضہ جاتی اضافے کی بدولت ہوئی۔

فِچ کو توقع ہے کہ یہ رفتار کچھ کم ہوگی، لیکن اثاثوں کا معیار مستحکم رہے گا، کیونکہ کم شرح سود سے قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت بہتر ہو رہی ہے۔

ایکویٹی کے لیے اوسط منافع 2023 میں 27 فیصد سے کم ہو کر 2025 کی پہلی سہ ماہی میں 20 فیصد رہ گیا، جس کی وجہ سخت نیٹ انٹرسٹ مارجن اور افراطِ زر کے باعث بڑھتی ہوئی آپریٹنگ لاگت تھی، یہ دباؤ جزوی طور پر غیر سودی آمدنی کے ذریعے متوازن کیا گیا، فِچ کو توقع ہے کہ مارجن پر مزید دباؤ رہے گا، لیکن مجموعی آمدنی کو قرضوں کی توسیع اور ٹریژری آپریشنز سہارا دیں گے۔

سسٹم کا کیپیٹل ایڈیکویسی ریشو (سی اے آر) مارچ 2025 تک بڑھ کر ایک دہائی کی بلند ترین سطح 21 فیصد پر پہنچ گیا، جو اندرونی سرمایہ پیدا کرنے کی مضبوط صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے، اگر زیادہ خطرے والے نجی شعبے کے قرضے بڑھتے ہیں تو سی اے آر میں کچھ کمی آسکتی ہے، لیکن یہ 11.5 فیصد کے ریگولیٹری کم از کم معیار سے کہیں اوپر ہی رہے گا۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025