• KHI: Sunny 17.6°C
  • LHR: Partly Cloudy 10.6°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.7°C
  • KHI: Sunny 17.6°C
  • LHR: Partly Cloudy 10.6°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.7°C

وفاق اور خیبر پختونخوا این ایف سی میں تبدیلیوں پر ’ایک صفحے‘ پر آگئے

شائع August 25, 2025
مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے اس مشترکہ مؤقف سے بڑے صوبے پنجاب اور سندھ پر دباؤ بڑھے گا — فوٹو: شٹر اسٹاک
مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے اس مشترکہ مؤقف سے بڑے صوبے پنجاب اور سندھ پر دباؤ بڑھے گا — فوٹو: شٹر اسٹاک

ایک غیر معمولی پیش رفت کے طور پر مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا حکومت اس بات پر متفق نظر آتی ہیں کہ نئے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ میں وسائل کی تقسیم کے لیے آبادی کے بڑے عنصر میں کمی کی جائے، این ایف سی کا ابتدائی اجلاس اس ہفتے کے آخر میں منعقد ہوگا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ مزمل اسلم نے پشاور میں ایف پی سی سی آئی کے ریجنل آفس اور کے پی بورڈ آف انویسٹمنٹ کے اشتراک سے منعقدہ 2 روزہ ’پراسپر پاکستان‘ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم مطالبہ کریں گے کہ صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم میں آبادی اور پسماندگی کو بنیاد بنانے کی حوصلہ شکنی کی جائے‘۔

وفاقی وزرا خصوصاً وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال بھی آبادی کو وسائل کی تقسیم کے لیے کم اہمیت دینے کی بات کر رہے ہیں، تاہم ماضی میں مردم شماری میں بے ضابطگیوں کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں جنہیں درست کرنے کی ضرورت ہے، این ایف سی کا پہلا اجلاس 29 اگست کو ہوگا جس میں آئندہ مذاکرات کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے اس مشترکہ مؤقف سے بڑے صوبے پنجاب اور سندھ پر دباؤ بڑھے گا کہ آبادی کو تقسیم کے فارمولے میں کم اہمیت دی جائے، جبکہ بلوچستان کو اس سے فائدہ ہوگا کیونکہ وہ رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا مگر کم آبادی والا صوبہ ہے۔

صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں مرکز میں اتحادی جماعتوں کے ہوتے ہوئے سندھ اور پنجاب کی صوبائی قیادت کے لیے آبادی کی اہمیت کو کم کرنے کی مخالفت مشکل ہوگی۔

مزمل اسلم نے کہا کہ اس وقت 82 فیصد وسائل کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر اور 10.6 فیصد پسماندگی کی بنیاد پر ہوتی ہے، مگر اب کے پی حکومت آبادی، خوشحالی اور جنگلات کو بھی نئے فارمولے میں شامل کرنے کا مطالبہ کرے گی، موجودہ فارمولے کے تحت صوبوں کو مجموعی وسائل کا 57.5 فیصد ملتا ہے جبکہ باقی وفاق کو جاتا ہے۔

انہوں نے وفاق پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی پنجاب اور سندھ میں ترقیاتی منصوبے بناتی رہی لیکن خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو نظرانداز کیا گیا، جس سے چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی بڑھا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں 12 ہائیڈرو پاور منصوبے زیر تعمیر ہیں جو ایک ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کریں گے، لیکن وہیلنگ چارجز بڑھا کر 27 روپے فی یونٹ کر دیے گئے ہیں، جس سے سستی بجلی کی ترسیل متاثر ہوگی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ 1991 میں پانی کے معاہدے کے باوجود 30 سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود لیفٹ بینک کینال تعمیر نہ ہو سکا۔

2009 کے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے بعد صوبوں کا حصہ 47 فیصد سے بڑھا کر 57.5 فیصد کیا گیا تھا، جو خصوصی گرانٹس کے بعد 59 فیصد تک پہنچا، جبکہ وفاق کا حصہ 42.5 فیصد رہ گیا، بعد میں وفاق نے پیٹرولیم لیوی اور صوبوں سے نقد بیلنس لے کر مالیاتی توازن دوبارہ اپنے حق میں کر لیا، تاہم اب وفاق آبادی کے عنصر کو کم کرنے اور ڈیمز، قدرتی آفات، ماحولیاتی تبدیلی اور قومی سلامتی جیسے مشترکہ اخراجات میں صوبوں کی شمولیت چاہتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 17 دسمبر 2025
کارٹون : 16 دسمبر 2025