غزہ میں قحط اور پیڈوفائل اسرائیلی اعلیٰ اہلکار کی امریکا میں گرفتاری اور رہائی کا واقعہ
اقوامِ متحدہ نے غزہ کو مکمل طور پر قحط زدہ قرار دیا ہے۔
جی ہاں غزہ کی مقتل گاہوں میں انسانی جان لینے کے لیے ایک اور ہتھیار (بھوک) کا سہارا لیا جارہا ہے کیونکہ بنیامن نیتن یاہو کے احکامات پر چلنے والی اسرائیلی قابض افواج کے لیے 60 ہزار افراد کو شہید کرنا کافی نہیں تھا۔ یہ تعداد انہیں کے ڈیٹا بیس کے مطابق ہیں کہ جس کے اعتبار سے جنگ کے پہلے مرحلے میں 83 فیصد نہتے شہری مارے گئے۔
اگر پہلے مرحلے کے مطابق قتل عام کا سلسلہ جاری رہا تو اس کا مطلب ہے کہ اب تک 50 ہزار معصوم شہری شہید ہوچکے ہیں۔
اسرائیلی قابض افواج جنہیں آئی ڈی ایف بھی کہا جاتا ہے، کی جانب سے لگائی گئی انسانی امداد کی فراہمی میں رکاوٹوں نے قحط کو جنم دیا ہے۔ غزہ کی پٹی پر غذائی قلت اور موت کا راج ہےجیسا کہ اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ ہر 5 میں سے ایک گھرانہ یعنی غزہ میں تقریباً 5 لاکھ فلسطینیوں کو خوراک اور غذائیت کی شدید کمی کا سامنا ہے جبکہ ہر تین میں سے ایک یا اس سے زائد تعداد غذائی قلت کا شکار ہے۔
اسی طرح ہر 10 ہزار میں سے دو افراد غذائیت کی کمی اورمتعلقہ بیماریوں کی وجہ سے روزانہ شہید ہورہے ہیں۔ یہ اعداد و شمار یقینی طور پر روح دہلا دینے والے ہیں۔
+972 ویب میگزین جسے اسرائیلی اور فلسطینی صحافی چلاتے ہیں، نے اسرائیلی وزارت انٹیلی جنس کے ڈیٹا بیس پر مبنی ایک اسٹوری شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پہلے مرحلے میں اسرائیل کے ہاتھوں مارے جانے والے فلسطینیوں میں سے صرف 17 فیصد کی شناخت حماس کے عسکریت پسند یا دیگر جنگجو کے طور پر ہوئی ہے۔ دیگر شہدا نہتے شہری تھے۔
دوسری جانب اسرائیل دعویٰ کرتا رہا ہے کہ ’مارے جانے والوں کے تناسب‘ میں 50 سے 60 فیصد عسکریت پسند ہیں۔ اسٹوری میں یہ بھی کہا گیا کہ شہدا میں 60 فیصد بچے اور خواتین ہیں۔
گمان ہوتا ہے کہ جیسے ان کے لیے غزہ میں مکمل اور تیزی سے فلسطینیوں کے خاتمے کے ہدف کو حاصل کرنے میں فاقہ کشی اور قتلِ عام ناکافی ہے۔ لہٰذا نوبیل امن انعام کے خواہشمند امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کو گرین سگنل دے دیا ہے جس کے تحت قابض افواج کے مضبوط 60 ہزار اہلکاروں کو جمع کیا گیا ہے۔ جبکہ بڑی تعداد میں ریزو فوجیوں کو بھی ڈیوٹی پر واپس بلایا جارہا ہے۔
قبضے کے منصوبے اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے غزہ کو قحط زدہ قرار دینے نے ’جمہوری اور مہذب‘ یورپی حکومتوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے کہ وہ فوری طور پر ان منصوبوں کو نامنظور کرتے ہوئے بیانات تو جاری کرسکتے ہیں مگر دوسری جانب وہ نسل پرست حکومت کو جدید ہتھیاروں و دیگر دفاعی ساز و سامان کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نسل پرست اسرائیلی حکومت کو نہ صرف غزہ بلکہ مغربی کنارے میں بھی فلسطینیوں کو قتل کرنے، انہیں معذور کرنے اور زبردستی بے گھر کرنے کے اپنے اقدامات میں بے مثال استثنیٰ حاصل ہے۔ مغربی کنارے میں اسرائیلی قابض افواج کے حمایت یافتہ آبادکار ہنگامہ آرائی میں مصروف ہیں۔ یروشلم میں مقیم فلسطینیوں کی کہانی بھی مختلف نہیں۔
اور یہی استثنیٰ انہیں امریکی سرزمین پر بھی حاصل ہے۔ گوگل سے آپ معلوم کرلیں کہ کتنے اسرائیلی پیڈوفائلز (بچوں کے ساتھ نازیبا حرکات کرنے والے) کو ایف بی آئی اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کی ٹاسک فورسز نے گرفتار کیا ہے اور ان میں سے کتنے افراد کی ضمانت ہوگئی اور انہیں رہا کردیا گیا ہے۔ ایسے ہی ایک واقعے کی کہانی آزاد صحافی شون کنگ نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر شیئر کی۔
ٹام الیگزینڈرووچ نامی شخص رواں ماہ اس وقت ایک مشترکہ ٹاسک فورس کے اسٹنگ آپریشن میں پکڑا گیا جو پیڈو فائلز کو نشانہ بنا رہا تھا کہ جب اس نے ایک نابالغ لڑکی کو جنسی تعلقات کے لیے راغب کرنے کی کوشش کی اور اپنے پیغامات میں نامناسب زبان کا استعمال کیا۔
اس معاملے پر آنے والی بہت سی خبروں کو ایکس سے ڈیلیٹ کردیا گیا ہے لیکن کوشش کرکے نیواڈا کے قانون نافذ کرنے والے افسران کی ریکارڈ کردہ ایک ویڈیو تلاش کی جاسکتی ہے کہ جہاں اسے گرفتاری کے چند منٹ بعد، ’معذرت، میرا مقصد کچھ کرنا نہیں تھا‘، کہتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ جب میں نے آخری بار دیکھا تو یہ ویڈیو ایکس پر Ultras_antifaa نامی ہینڈل پر موجود تھی۔
بہت ساری معلومات آن لائن دستیاب ہیں کہ یہ طاقتور شخص جس نے قانون نافذ کرنے والے افسران کو بتایا کہ وہ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی ( این ایس اے) اور ایف بی آئی کے ساتھ میٹنگز کے سلسلے میں امریکا میں موجود ہے مگر ایکس پر سے بہت سارے مواد کو ہٹا دیا گیا ہے اور دوسری انٹرنیٹ سائٹس کو بھی ختم کر دیا گیا ہے جہاں اس واقعے کی اطلاع دی جا رہی تھی۔
لیکن یہ شخص اتنا بااثر کیوں تھا؟ ایسا اس لیے ہے کیونکہ وہ جس اسرائیلی محکمہ کی قیادت کرتا ہے وہ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) جیسے پلیٹ فارمز کو ’ٹیک ڈاون‘ کی درخواستیں بھیجتا ہے یعنی ان سے مخصوص مواد کو ہٹانے کے لیے کہتا ہے۔ وہ نیتن یاہو کے اعلیٰ معاونین میں سے ایک ہے اور اس کے سوشل میڈیا پروفائل کے مطابق، وہ ’ایگزیکٹیو ڈائریکٹر، اسرائیل نیشنل سائبر ڈائریکٹوریٹ، بلڈنگ نیشنل سائبر سیکیورٹی، مصنوعی ذہانت برائے دفاع، تھریٹ انٹیلی جنس (سی ٹی آئی)، ایوی ایشن سیکیورٹی‘ ہے۔
صحافی شون کنگ نے اطلاع دی کہ اسٹنگ آپریشن اور گرفتاری میں شامل ٹاسک فورسز کے افسران نے اس بات کی تصدیق کی کہ ’اسرائیل کی درخواست پر ٹرمپ انتظامیہ نے ذاتی طور پر مداخلت کی اور امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں بشمول اسٹنگ میں شامل ان کے اپنے وفاقی ایجنٹس کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہا کہ الیگزینڈرووچ کو جلد اور بحفاظت اسرائیل واپس پہنچایا جائے‘۔
افسران نے تصدیق کی کہ گرفتار شخص کے پاس سفارتی ویزا ہے اور نہ ہی اسے کسی قسم کا سفارتی استثنیٰ حاصل ہے۔
الیگزینڈرووچ کا محکمہ پیگاسس جاسوسی سافٹ ویئر کے ڈویلپر این ایس او کے ساتھ قریبی کام کرتا ہے جسے دنیا بھر کی حکومتیں اپنے شہریوں کے ساتھ ساتھ دشمنوں کی خفیہ معلومات پر جاسوسی کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
تمام امکانات یہی بتاتے ہیں کہ یہ محکمہ غیرملکی حکومتوں اور رہنماؤں کی جاسوسی کرتا ہے۔ الیگزینڈرووچ نے یہاں تک شیئر کیا تھا کہ انہوں نے وزیراعظم نیتن یاہو کو ان منصوبوں کے بارے میں پیشکش دیں کہ جن کا مقصد اسرائیل کی حفاظت اور اس کے دشمنوں کو کمزور کرنا ہے۔
اب ذرا تصور کریں کہ اگر کسی دوسرے ملک کا شہری کسی نابالغ کے ساتھ نازیبا حرکات کرنے کی کوشش میں پکڑا جاتا تو کیا ہوتا۔ امریکا نے اسٹوڈنٹ ویزا منسوخ کرکے بڑی تعداد میں غیرملکی طلبہ کی زندگیاں برباد کی ہیں، وہ بھی اس لیے کیونکہ وہ غزہ پر اسرائیلی مظالم کے خلاف پُرامن احتجاج کرنے کے اپنی آزادی کا استعمال کررہے تھے۔
امریکی انتظامیہ نے امریکی کالجز میں داخلہ لینے والے غیرملکی طلبہ کے ویزا بھی صرف اس لیے بلاک کردیے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پر اسرائیل پر تنقید کی تھی۔
اور امریکا میں نیواڈا ریاست کے اٹارنی جنہوں نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر اسرائیلی اقدامات اور فلسطینیوں کے قتلِ عام کی حمایت میں متعدد پوسٹس کی تھیں (جو اب ڈیلیٹ کردی گئی ہیں) اور ڈسٹرکٹ اٹارنی کلارک کاؤنٹی (جو امریکا اور اسرائیل دونوں کی شہریت رکھتے ہیں) نے اپنے طور پر ایسے شخص کو جیل سے رہا کرنے میں مدد کی جس پر الزامات کی نوعیت کے اعتبار سے، اسے 10 سال سے زائد کی قید کی کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کی درخواست پر خوشی خوشی عمل درآمد کیا اور الیگزینڈرووچ کو ضمانت پر رہا کیا۔
یہ واقعہ میں نے یہاں اسی لیے شیئر کیا کیونکہ اسے آپ مغربی میڈیا پر نہیں دیکھ پائیں گے جوکہ آزادی اظہارِ رائے کے نام نہاد علم بردار ہیں۔ یہ واقعہ بتانے کا مقصد یہی ظاہر کرنا ہے کہ نسل پرست حکومت کو امریکا میں کس حد تک فوائد حاصل ہیں۔ اس اثر و رسوخ کے نتیجے کے طور پر فلسطین اور فلسطینی شہری مصائب کا سامنا کررہے ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔













لائیو ٹی وی