چین نے مقناطیس کی برآمدات کو محدود کیا تو 200 فیصد تک ٹیرف لگا سکتے ہیں، ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر چین نے ’نایاب مقناطیس‘ کی برآمدات کو محدود کیا تو اس پر مزید سخت محصولات عائد کیے جائیں گے، اس سے دنیا کی 2 بڑی معیشتوں کے درمیان نازک تجارتی جنگ بندی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
سی این بی سی کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں جنوبی کوریا کے صدر لی جے میونگ سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انہیں ہمیں مقناطیس (میگنیٹس) دینا ہوں گے، اگر وہ ہمیں میگنیٹس نہیں دیتے تو ہمیں ان پر 200 فیصد محصول یا اس جیسا کچھ لگانا پڑے گا‘۔
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ ہوائی جہاز کے پرزے بیجنگ کے خلاف واشنگٹن کے پاس ایک اہم ہتھیار ہیں تاکہ وہ ریئر ارتھ پر اپنی گرفت کو توڑ سکے، ان کے 200 جہاز اُڑ نہیں سکے کیونکہ ہم نے انہیں بوئنگ کے پرزے جان بوجھ کر نہیں دیے تھے، اس لیے کہ وہ ہمیں مقناطیس نہیں دے رہے تھے۔
بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق طیارہ ساز کمپنی بوئنگ چین کو تقریباً 500 طیارے فروخت کرنے کے معاہدے پر کام کر رہی ہے، جس میں دونوں فریقین طیاروں کے ماڈلز، اقسام اور ترسیل کے شیڈول کو حتمی شکل دے رہے ہیں، جو ممکنہ امریکا-چین تجارتی معاہدے میں ہوائی جہازوں کے کردار کو اجاگر کرتا ہے۔
ٹرمپ کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب چین کی ’ریئر ارتھ میگنیٹس‘ کی برآمدات اپریل میں لگائی گئی پابندیوں کے بعد بحال ہو کر پہلے کی سطح تک پہنچ گئی ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جون میں امریکا کو بھیجی جانے والی میگنیٹس میں 7 گنا سے زیادہ (660 فیصد) اضافہ ہوا جب کہ جولائی میں ان کی مقدار میں مزید 76 فیصد ماہانہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔
چین ریئر ارتھ میگنیٹس کی پیداوار پر غالب ہے اور عالمی سپلائی کا تقریباً 90 فیصد کنٹرول کرتا ہے، اسی طرح ان معدنیات کی ریفائننگ پر بھی اس کی گرفت ہے، جو انہیں بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
یہ غلبہ بیجنگ کو تجارتی مذاکرات میں خاطر خواہ اثر و رسوخ دیتا ہے، کیونکہ امریکا اپنی بڑی مینوفیکچرنگ انڈسٹری، خصوصاً آٹوموٹو، الیکٹرانکس اور قابلِ تجدید توانائی کے لیے ان میگنیٹس پر بھاری انحصار کرتا ہے۔
بیجنگ میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فار چائنا اینڈ گلوبلائزیشن کے بانی و صدر ہنری وانگ نے کہا کہ ٹرمپ کے بے تکلف تبصرے دراصل بیجنگ کے ساتھ تجارتی تعاون بڑھانے اور معاہدے تک پہنچنے کی ان کی خواہش کو ظاہر کرتے ہیں۔
چین کی اسٹیٹ کونسل کے سابق مشیر ہنری وانگ نے کہا کہ وہ محض ’دھونس‘ دکھا رہے ہیں، وہ ہمیشہ محصولات یا ممکنہ سزا کے بارے میں بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، لیکن ہمیں اس بیان بازی میں نہیں اُلجھنا چاہیے، اصل امتحان دونوں فریقین کی اپنی ذمہ داریوں پر عملدرآمد کرنے کی کوششوں میں ہوگا۔
جون میں واشنگٹن اور بیجنگ نے ایک تجارتی فریم ورک پر اتفاق کیا تھا، جس میں چین کی ریئر ارتھ برآمدات پر قابو نرم کرنے اور امریکا کی جانب سے چین کو ٹیکنالوجی کی ترسیل پر کچھ پابندیاں ہٹانے شامل تھیں۔
امریکا اور چین نے ایک دوسرے کی اشیا پر محصولات کو بالترتیب تقریباً 55 فیصد اور 32 فیصد تک کم کرنے پر اتفاق کیا، محصولات کی ’عارضی جنگ بندی‘ نومبر کے وسط میں ختم ہونا طے ہے۔
امریکا میں چینی سفارت خانے نے ’سی این بی سی‘ کے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق سینئر چینی تجارتی مذاکرات کار لی چینگ گانگ اس ہفتے واشنگٹن کا دورہ کرنے والے ہیں، جہاں وہ امریکی تجارتی نمائندے جیمیسن گریئر اور خزانے کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کریں گے۔
گرین پوائنٹ ایڈوائزری فرم کے منیجنگ ڈائریکٹر الفریڈو مونٹوفار-ہیلو نے کہا کہ آیا یہ جنگ بندی نومبر کی ڈیڈ لائن کے بعد بھی برقرار رہتی ہے یا نہیں، اس کا انحصار مسلسل دوطرفہ روابط پر ہوگا، اور لی چینگ کی آئندہ ملاقاتیں اعلیٰ سطح کے مذاکرات اور دیرپا حل کی بنیاد رکھ سکتی ہیں تاکہ کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔













لائیو ٹی وی