سیلاب سے متاثرہ عارضی ریلیف کیمپوں میں رہائش پذیر خواتین کی مشکلات میں اضافہ

شائع August 31, 2025
— فوٹو: اے ایف پی
— فوٹو: اے ایف پی

سیلاب سے بچنےکے لیےکچھ حاملہ خواتین نے ایک پرانےسےکلاس روم، جسےاب عارضی طور پر ریلیف کیمپ میں تبدیل کیاگیا ہے، وہاں پناہ لے رکھی ہے، یہاں موجود خواتین کےجسم درد سے چور ہیں، آنکھیں تھکن اور خاموش مایوسی کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق لاہور کے نواحی علاقے چونگ میں قائم اس ریلیف کیمپ میں موجود خواتین سیلاب سے متاثرہ اپنے گھروں سے پانی کے اترنے کا انتظار کر رہی ہیں۔

عارضی کیمپ میں موجود ان خواتین کو سینیٹری پیڈز اور بنیادی دواؤں تک محدود رسائی اور حمل سے متعلق طبی سہولیات بھی کمی کے مسائل درپیش ہیں۔

19 سالہ شمائلہ ریاض، جو اپنے پہلے بچےکےساتھ7 ماہ کی حاملہ بھی ہیں، گزشتہ 4 دنوں سے ریلیف کیمپ میں رہائش پذیر اور حمل کے دوران ہونے والے کھچاؤ اور درد کو برداشت کر رہی ہیں۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ میں اپنے آنے والے بچے کے بارے میں سوچنا چاہتی تھی لیکن اب مجھے اپنے مستقبل پر ہی یقین نہیں رہا۔

اسی اسکول میں، جہاں 2 ہزار سے زیادہ لوگ موجود ہیں، خواتین گندے کپڑوں میں بیٹھی ہیں، اردگرد کیچڑ اور بارش کا پانی بھی جمع ہے۔

19 سالہ فاطمہ (فرضی نام) جو ایک سالہ بیٹی کی ماں اور 4 ماہ کی حاملہ ہے، کہتی ہیں میرا جسم بہت درد کرتا ہے اور مجھے وہ دوائیاں نہیں مل رہیں کو مجھے درکار ہیں۔

فاطمہ نے مزید کہا کہ میں جیسا چاہتی تھی کھاتی تھی، سوتی تھی، چلتی پھرتی تھی، لیکن اب یہ سب کچھ ختم ہو گیا ہے، میں یہاں ایسا کچھ نہیں کر سکتی۔

گزشتہ ہفتے مون سون کی بارشوں کے باعث پنجاب سے گزرنے والے 3 بڑے دریاؤں میں طغیانی دیکھنے میں آئی، پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب کے مطابق اتوار تک متاثرہ افراد کی تعداد بڑھ کر 20 لاکھ سے زیادہ ہو گئی ہے۔

تقریبا 7 لاکھ 50 ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے جن میں سے ایک لاکھ 15 ہزار کو کشتیوں کے ذریعے سیلابی پانی نکالا گیا، اسے پنجاب کی تاریخ کا سب سے بڑا ریسکیو آپریشن قرار دیا جا رہا ہے۔

سیلاب زیادہ تر دیہی علاقوں کو متاثر کر رہے ہیں، تاہم لاہور کے کئی حصے بھی شدید بارش کے باعث زیر آب آئے ہیں۔

جنوبی ایشیا میں مون سون کی بارشیں عام طور پر کھیتوں کے لیے ضروری پانی مہیا کرتی ہیں، تاہم موسمیاتی تبدیلی کے باعث یہ سلسلہ اب زیادہ غیر یقینی اور مہلک ہوتا جا رہا ہے۔

غیر معمولی بارشوں سے لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات میں اضافہ اور شدید سیلاب آئے، جون سے اب تک ملک بھر میں 850 سے زائد افراد مخلتف واقعات میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔

مریم اورنگزیب کے مطابق حالیہ بارشوں میں کم از کم 32 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔

انفیکشن اور صدمہ

عارضی خیموں میں بیٹھی خواتین کو ماہواری کے دوران سینیٹری پیڈز اور صاف کپڑے حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے، ماہواری اب بھی ایک ممنوع موضوع ہے، جس پر بات کرنے سے کئی خواتین بات کرنے سے کتراتی ہیں۔

35 سالہ علیمہ بی بی، جن کا بچہ مٹی سے بھرے کپڑے پر سو رہا تھا، کہتی ہیں، ہم اپنی ماہواری کے لیے پیڈز حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اگر مل بھی جائیں تو انہیں استعمال کرنے کے لیے مناسب باتھ روم موجود نہیں، ہم قریبی گھروں میں جا کر باتھ روم استعمال کرتے ہیں۔

جمیلہ (فرضی نام) نے کہا کہ وہ گائے کے باڑے کے قریب بنے عارضی باتھ روم میں جا کر اپنی ضرورت پوری کرتی ہیں، ہم ان گھروں کے مردوں کے باہر جانے کا انتظار کرتے ہیں، پھر ہم باتھ روم استعمال کر کے پیڈز تبدیل کرتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ریلیف کیمپ کے قریب کھڑی ایک میڈیکل وین کے باہر ایک فکر مند عورت نے پوچھا کہ اپنی 8 ماہ کی حاملہ بہو کو کہاں لے کر جائے۔

مقامی این جی او کے میڈیکل کیمپ میں موجود ڈاکٹروں کے مطابق حاملہ خواتین متعدی بیماریوں کی بھی زد میں ہیں۔

27 سالہ ڈاکٹر فہد عباس نے کہا کہ میں روزانہ تقریبا 200 سے 300 مریض دیکھتا ہوں، جنہیں مختلف انفیکشن اور پانی سے پھیلنے والی بیماریاں لاحق ہوئی ہیں۔

یہاں بہت سے مریض خصوصا خواتین اور بچے ہیں، جو اپنے گھروں کے نقصان کے بعد نفسیاتی صدمے میں مبتلا ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق، سیلاب کے بغیر بھی، روزانہ 675 نوزائیدہ بچے اور 27 خواتین دورانِ زچگی قابلِ علاج پیچیدگیوں کے باعث جاں بحق ہو جاتی ہیں۔

ایک اور خاتون، جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنےکی درخواست کی، انہوں نے بتایا کہ وہ دوا جو وہ ماہواری کے درد کے لیے استعمال کرتی تھیں، اب خریدنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔

جمیلہ نے مزید کہا کہ ہم موت سے تو بچ گئے ہیں، لیکن یہ مصیبت موت سے کم بھی نہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے لیے ڈان میڈیا گروپ کی مہم بریتھ پاکستان کا حصہ بنیں۔

کارٹون

کارٹون : 5 دسمبر 2025
کارٹون : 4 دسمبر 2025