دنیا کی سب سے بڑی اسکالرز ایسوسی ایشن نے اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کا مرتکب قرار دے دیا
دنیا کی سب سے بڑی علمی انجمن ( اسکالرز ایسوسی ایشن) نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی ’ علمی انجمن برائے ماہرین نسل کشی’ ( انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف جینو سائیڈ اسکالرز ) کی صدر نے بتایا ہے کہ انجمن نے ایک قرارداد منظور کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ قانونی معیار پورا ہو گیا ہے جس کی بنیاد پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔
500 ارکان پر مشتمل انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف جینو سائیڈ اسکالرز (آئی جی ایس اے ) کے ووٹ ڈالنے والے ارکان میں سے 86 فیصد نے اس قرارداد کی حمایت کی، جس میں قرار دیا گیا کہ اسرائیل کی ’ غزہ میں پالیسیاں اور اقدامات’ 1948ء میں اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن کے آرٹیکل II میں دی گئی قانونی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔
خیال رہے کہ اسرائیل نے اکتوبر 2023 میں غزہ کی پٹی پر اس وقت تباہ کن حملہ شروع کیا تھا، جب حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیلی آبادیوں پر حملہ کرکے 1,200 افراد کو ہلاک کیا اور 250 سے زیادہ کو یرغمال بنایا، اس کے بعد اسرائیلی فوجی حملوں میں غزہ میں اب تک 63 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، علاقے کی زیادہ تر عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں اور تقریباً تمام رہائشی کم از کم ایک بار اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں۔
تین صفحات پر مشتمل اس قرارداد میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے تمام اقدامات فوری طور پر بند کرے، جن میں عام شہریوں بالخصوص بچوں پر دانستہ حملے اور انہیں شہید کرنا، بھوک سے مارنا، انسانی امداد، پانی، ایندھن اور بقا کے لیے ضروری دیگر اشیا کی فراہمی سے محروم کرنا، جنسی و تولیدی تشدد اور آبادی کو جبری طور پر بے دخل کرنا شامل ہیں۔
قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیل پر حملہ کرنے والی حماس کی کارروائی، جو اس جنگ کا باعث بنی وہ بھی بین الاقوامی جرائم کے زمرے میں آتی ہے۔
انجمن کی صدر میلانی اوبرائن، جو یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں بین الاقوامی قانون کی پروفیسر ہیں اور نسل کشی پر تحقیق کرتی ہیں، نے رائٹرز کو بتایا کہ’ یہ نسل کشی کے مطالعے کے ماہرین کی طرف سے ایک حتمی بیان ہے کہ غزہ میں زمینی حقائق پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ نسل کشی ہے۔’
اسرائیل ہیگ میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں ایک مقدمے کا سامنا کر رہا ہے، جس میں اس پر نسل کشی کا الزام ہے۔
ہولوکاسٹ کے بعد اپنایا گیا کنونشن
1948ء میں نسل کشی کے خلاف اقوام متحدہ کا کنونشن، جو نازی جرمنی کی طرف سے یہودیوں کے قتلِ عام کے بعد اپنایا گیا، نسل کشی کو ان جرائم کے طور پر بیان کرتا ہے جو کسی قومی، نسلی، نسلی یا مذہبی گروہ کو، پورے یا جزوی طور پر، تباہ کرنے کے ارادے سے کیے جائیں، یہ کنونشن تمام ممالک کو نسل کشی کو روکنے اور ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کا پابند کرتا ہے۔
1994ء میں نسل کشی کے اسکالرز کی انجمن کے قیام کے بعد سے یہ ( انجمن) نو قراردادیں منظور کر چکی ہے جن میں تاریخی یا جاری نسل کشی کے واقعات کو تسلیم کیا گیا ہے۔
آئی اے جی ایس ایک علمی جرنل شائع کرتی ہے اور نسل کشی کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنسیں منعقد کرتی ہے اور اسے اس میدان میں سب سے بڑی علمی تنظیم سمجھا جاتا ہے۔
ایک اور گروپ، انٹرنیشنل نیٹ ورک آف جینو سائیڈ اسکالرز بھی کانفرنسیں منعقد کرتا اور جرنل شائع کرتا ہے، لیکن اس طرح کی قراردادیں جاری نہیں کرتا۔
غزہ کی حکومت کے میڈیا آفس کے سربراہ اسمٰعیل الثوابہ نے اس قرارداد کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ’ ایک معزز علمی مؤقف’ قرار دیا، جو ان کے بقول ’ بین الاقوامی برادری پر قانونی اور اخلاقی ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ فوری اقدام کرے، جرم روکے، شہریوں کا تحفظ کرے اور قابض قوت کے رہنماؤں کو جوابدہ ٹھہرائے۔’
نیدرلینڈز کی اوپن یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کے پروفیسر سرگئی واسیلئیف، جو انجمن کے رکن نہیں ہیں، نے رائٹرز کو بتایا کہ یہ قرارداد ظاہر کرتی ہے کہ ’ یہ قانونی جائزہ اب اکیڈمیا میں، بالخصوص نسل کشی کے مطالعے کے میدان میں، مرکزی دھارے میں شامل ہو چکا ہے۔’
متعدد بین الاقوامی حقوق کی تنظیمیں اور بعض اسرائیلی این جی اوز پہلے ہی اسرائیل پر نسل کشی کا الزام لگا چکی ہیں۔
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق فولکر ترک کے دفتر کے سیکڑوں اہلکاروں نے انہیں ایک خط لکھا تھا، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ غزہ کے تنازع کو واضح طور پر ایک جاری نسل کشی کے طور پر بیان کریں۔












لائیو ٹی وی