مغربی کنارے کا الحاق ’سرخ لکیر‘ ہے، ابراہم معاہدوں کو نقصان ہوگا، یو اے ای کا اسرائیل کو انتباہ
متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ مقبوضہ مغربی کنارے کا الحاق ’سرخ لکیر‘ ہوگا، جو ابراہم معاہدوں کو سخت نقصان پہنچائے گا، وہی معاہدے جن کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آئے تھے۔
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ان معاہدوں کی بنیاد رکھنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی موجودہ مدت میں ابراہم معاہدوں کو وسعت دینے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن اسرائیل کی جنگی پالیسیوں پر بڑھتی ہوئی عالمی تنقید کے باعث یہ کوششیں تعطل کا شکار ہیں۔
یہ انتباہ اس اعلان کے بعد آیا جو اسرائیلی دائیں بازو کے وزیرِ خزانہ سموٹریچ نے اگست میں دیا تھا کہ ایک پرانی تاخیر شدہ بستی کی تعمیر کا کام شروع کیا جائے گا، جو مغربی کنارے کو تقسیم کر کے مشرقی یروشلم سے کاٹ دے گی، سموٹریچ مغربی کنارے کے الحاق کا بھی مطالبہ کر چکے ہیں۔
متحدہ عرب امارات کی وزیرِ خارجہ کی نمائندہ اور معاون وزیر برائے سیاسی امور لانا نسیبہ نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ شروع ہی سے ہم نے ان معاہدوں کو فلسطینی عوام اور ان کی ایک آزاد ریاست کے جائز حق کی حمایت جاری رکھنے کا ذریعہ سمجھا، ہم اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان بستیوں کے منصوبوں کو معطل کرے۔
لانا نسیبہ نے کہا کہ مقبوضہ مغربی کنارے کا اسرائیل سے الحاق متحدہ عرب امارات کے لیے ایک سرخ لکیر ہوگا، کیونکہ یہ معاہدوں کے وژن اور روح کو نقصان پہنچائے گا اور خطے میں انضمام کی کوششوں کو ختم کر دے گا۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم کے دفتر نے فوری طور پر اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، تاہم بدھ کے روز سموٹریچ نے کہا کہ الحاق کے لیے نقشے تیار کیے جا رہے ہیں، لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ انہیں وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو کی حمایت حاصل ہے یا نہیں۔
غزہ میں فوجی کارروائی، 24 فلسطینی شہید
یہ سفارتی کشیدگی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیلی فوج غزہ شہر کے اندر گہرائی تک داخل ہو گئی ہے، فوجی اور ٹینک شیخ رضوان میں داخل ہوئے جو شہر کے سب سے گنجان آباد علاقوں میں سے ایک ہے۔
رہائشیوں کا کہنا تھا کہ فوج نے گھروں اور اُن خیمہ بستیوں کو تباہ کر دیا جہاں جنگ سے بے گھر فلسطینی رہائش پذیر تھے۔
مقامی صحت حکام کے مطابق بدھ کو کم از کم 24 فلسطینی، جن میں بچے بھی شامل ہیں، غزہ بھر میں شہید ہوئے، جن میں زیادہ تر غزہ شہر کے رہائشی تھے۔
60 سالہ ذکیہ سمیع نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ شیخ رضوان کو الٹ کر جلایا جا رہا ہے، قابضین نے گھروں کو تباہ کیا، خیموں کو جلا ڈالا اور ڈرون کے ذریعے آڈیو پیغامات نشر کیے جن میں لوگوں کو علاقہ خالی کرنے کا کہا گیا۔
عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ فوج نے 3 اسکولوں پر دستی بم پھینکے، یہ اسکول بے گھر خاندانوں کے لیے پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہو رہے تھے، میڈیکل کلینک پر بمباری میں 2 ایمبولینسیں تباہ ہو گئیں۔
بینجمن نیتن یاہو نے فوج کو شہر پر قبضہ کرنے کا حکم دیا ہے، جسے وہ حماس کا آخری گڑھ قرار دیتے ہیں، اسرائیل میں عوامی رائے تیزی سے اس جانب جھک رہی ہے کہ جنگ کو قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے ذریعے ختم کیا جائے۔
یروشلم میں بدھ کے روز مظاہرین اسرائیل کی قومی لائبریری کی چھت پر چڑھ گئے اور ایک بینر لہرایا، جس پر لکھا تھا کہ ’تم نے ہمیں چھوڑا اور مار بھی ڈالا‘۔
معذور بچے
جنگ کے شہریوں پر تباہ کن اثرات کو اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں اجاگر کیا گیا ہے، جس میں بتایا گیا کہ غزہ میں کم از کم 21 ہزار بچے اس جنگ کے نتیجے میں معذور ہو چکے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی کمیٹی برائے حقوقِ معذور افراد نے کہا کہ جنگ سے متاثرہ 40 ہزار 500 بچوں میں سے آدھے سے زیادہ معذور ہوچکے ہیں۔
کمیٹی نے رپورٹ کیا کہ اسرائیلی انخلا کے احکامات اکثر ایسے افراد کے لیے ناقابلِ رسائی تھے، جنہیں سننے یا دیکھنے میں دشواری تھی۔
کمیٹی کے رکن مہند العزہ نے ایک مثال دی کہ کس طرح رفح میں ایک بہری ماں اپنے بچوں سمیت مار دی گئی کیونکہ وہ انخلا کے پیغامات سے آگاہ نہیں ہو سکی تھی۔
انسانی ہمدردی کی امداد پر عائد پابندیوں نے معذور افراد پر غیر متناسب اثر ڈالا ہے جو خوراک، پانی اور صفائی سے محرومی کا شکار ہیں۔
کمیٹی نے نوٹ کیا کہ 83 فیصد معذور افراد اپنی وہیل چیئرز اور واکرز جیسے آلات کھو چکے ہیں، جنہیں اسرائیلی حکام اکثر دوہری استعمال کی اشیا قرار دے کر امدادی سامان سے خارج کر دیتے ہیں۔
مہند العزہ نے کہا کہ ہم یہ توقع نہیں کر سکتے کہ معذور بچے دوڑ کر امدادی پوائنٹس تک پہنچ سکیں، اسی لیے ہماری بنیادی سفارش یہ ہے کہ معذور بچوں تک خود پہنچا جائے۔












لائیو ٹی وی