آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے آڈٹ رپورٹس میں غلطیوں کے الزامات مسترد کردیے

شائع September 9, 2025
— فائل فوٹو: بزنس ریکارڈر
— فائل فوٹو: بزنس ریکارڈر

آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے گزشتہ ماہ جاری کی گئی آڈٹ رپورٹس میں غلطیوں اور حسابی خلل سے متعلق میڈیا کے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد قرار دے دیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پاکستان کے آڈیٹر جنرل (اے جی پی) نے ان میڈیا رپورٹس کی تردید کی، جن میں گزشتہ ماہ جاری کی گئی آڈٹ رپورٹس میں غلطیوں اور حسابی خلل کے الزامات لگائے گئے تھے، جن میں 375 کھرب روپے سے زائد مالی بے قاعدگیوں، عوامی پیسوں کے نقصان اور عوامی سرمایہ کاری کے متوقع اثرات کے فقدان کو اجاگر کیا گیا تھا۔

محکمہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان (ڈی اے جی پی) کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ اے جی پی آڈٹ رپورٹس میں غلطیوں کے الزامات کو مسترد کرتا ہے اور دفتر نے وفاقی آڈٹ رپورٹس میں حسابی غلطیوں کے حالیہ میڈیا الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے انہیں بالکل بے بنیاد اور گمراہ کن قرار دیا ہے۔

ڈی اے جی پی نے یہ بھی انکار کیا کہ رپورٹس آئینی عمل کو نظرانداز کرتے ہوئے جاری کی گئی ہیں، جو صدر کو پیش کرنے اور پھر پارلیمنٹ کے سامنے رکھنے کا تقاضا کرتی ہیں۔

بیان کے مطابق مالی سال 24-2023 کے آڈٹ رپورٹس، تفویضی اکاؤنٹس اور مالی بیانات صدر کو مناسب طریقے سے پیش کیے گئے اور وزیراعظم کے ذریعے آئینی دفعات اور رولز آف بزنس 1973 کے مطابق پارلیمنٹ کے سامنے بھیج دیے گئے، صدر نے پیشکش کی منظوری دی اور بعد ازاں رپورٹس دونوں ایوانوں کو بھیجی گئیں۔

ڈی اے جی پی نے وضاحت کی کہ بحیثیت ملک کی اعلیٰ ترین آڈٹ ادارہ، یہ آئینی اختیار کے تحت کام کرتا ہے جو آئین کے آرٹیکل 168 تا 171 میں بیان کیا گیا ہے۔

آرٹیکل 171 کے مطابق، وفاقی اکاؤنٹس سے متعلق آڈیٹر جنرل کی رپورٹس صدر کو پیش کی جائیں گی، جو انہیں دونوں ایوانوں کے سامنے رکھنے کا حکم دیں گے اور کسی صوبے کے اکاؤنٹس سے متعلق رپورٹس صوبے کے گورنر کو پیش کی جائیں گی، جو انہیں صوبائی اسمبلی کے سامنے رکھیں گے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ صدر کی طرف سے رپورٹس کی منظوری 12 اپریل 2025 کو صدر کے سیکریٹریٹ کے ذریعے باقاعدہ طور پر منتقل کی گئی اور اس کے بعد مطلوبہ تعداد میں وفاقی آڈٹ رپورٹس دونوں ایوانوں کے سامنے رکھنے کے لیے شائع کی گئیں۔

اے جی پی کی درخواست پر یہ تحاریک 13 اگست 2025 کو قومی اسمبلی کے روزانہ اجلاس کے آرڈرز میں شامل کی گئیں۔

تاہم، قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے اپنے ڈپٹی سیکریٹری (قانون سازی) کے ذریعے اسی دن اطلاع دی کہ اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا ہے، نتیجتاً رپورٹس پیش کرنے کی تحریک کو آرڈرز آف دی ڈے میں شامل نہیں کیا جا سکا۔

سیکریٹریٹ نے مزید کہا کہ رپورٹس کو قانون سازی شاخ سے جمع کیا جائے اور انہیں باقاعدہ ایوان کے سامنے پیش کرنے تک رازدارانہ طریقے سے رکھا جائے۔

مزید وضاحت کی گئی کہ سینٹ کو بھیجی گئی آڈٹ رپورٹس سینٹ سیکریٹریٹ کے پاس ہی رکھی جائیں گی۔

اس ریکارڈ کی بنیاد پر ڈی اے جی پی نے کہا کہ میڈیا کے مختلف حصوں میں گردش کرنے والی خبریں، جن میں آڈٹ رپورٹس میں حسابی غلطیوں کے الزامات لگائے گئے ہیں اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ رپورٹس قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے اے جی پی کو واپس بھیج دی گئی ہیں، بالکل بے بنیاد اور گمراہ کن ہیں۔

بیان میں زور دیا گیا کہ آڈٹ رپورٹس، تفویضی اکاؤنٹس اور مالی بیانات صدر کی منظوری اور وزیراعظم کے مشورے کے بعد دونوں ایوانوں کے سامنے رکھنے کے لیے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کو بھیجے گئے۔

اے جی پی نے اپنی آڈٹ رپورٹس کی سالمیت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹس مناسب معیار کی جانچ کے بعد تیار کی گئی ہیں اور ان میں کوئی غلطی نہیں ہے۔

اس نے وضاحت کی کہ میڈیا میں بیان کیے گئے اعداد و شمار صرف 25-2024 کے مشترکہ وفاقی آڈٹ رپورٹ کے ایگزیکٹو سمری سے لیے گئے ہیں، جو شعبہ وار نتائج تک رسائی اور جائزہ لینے میں اسٹیک ہولڈرز کی مدد کے لیے بطور حوالہ تیار کی جاتی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025