بلوچستان میں ہڑتال کے باعث نظام زندگی مفلوج، گرفتاریاں 260 تک جاپہنچیں
بلوچستان میں اپوزیشن جماعتوں کی پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کے باعث پیر کو صوبے بھر میں نظام زندگی مفلوج ہوگیا جبکہ مبینہ پرتشدد مظاہروں اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر گرفتار افراد کی تعداد 260 ہوگئی۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ایک درجن سے زائد اموات کا سبب بننے والے حالیہ خودکش دھماکے کے خلاف دی گئی کال کے نتیجے میں کوئٹہ اور صوبے کے دیگر حصوں میں مکمل ہڑتال کی گئی، جس کے باعث پورے صوبے میں زندگی مفلوج رہی اور سڑکوں کی بندش کے باعث بلوچستان باقی ملک سے کٹ گیا، تاہم ریل اور فضائی راستے کھلے رہے۔
مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی بھی اطلاع ملی، حکام نے بتایا کہ ایک سینیئر پولیس افسر کو گولی لگی اور انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا۔
تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان اتحاد کے کارکنوں اور حامیوں نے صبح کے وقت مختلف داخلی مقامات پر قومی شاہراہوں کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا، انہوں نے رکاوٹیں اور بڑے پتھر لگا کر راستے بلاک کیے، ٹرانسپورٹرز کی تنظیموں نے پہلے ہی احتجاج کی حمایت کا اعلان کر دیا تھا۔
اسی طرح پاکستان، افغانستان اور ایران کے درمیان تجارتی سرگرمیاں بھی ہڑتال کے باعث معطل رہیں، کوئی بھی ٹرک یا دوسری گاڑی چمن اور تافتان کی سرحدی شہروں تک نہ پہنچ سکی کیونکہ شاہراہیں بند تھیں، تاہم ایئرپورٹ اور ریل سروسز سخت سیکیورٹی نگرانی میں جاری رہیں۔
سڑکوں اور تجارت کے علاوہ کاروبار بھی بند رہا اور اپوزیشن جماعتوں کے کارکن صوبائی دارالحکومت کے تجارتی مراکز میں گشت کرتے رہے تاکہ ہڑتال پر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔
جب پولیس نے مرکزی سڑکوں سے رکاوٹیں ہٹانے کی کوشش کی تو سریاب، ایئرپورٹ روڈ، پشتون آباد، نوآکلی اور جناح روڈ پر جھڑپیں ہوئیں، پولیس نے رکاوٹیں ہٹا دیں اور اتحاد کے کارکنوں کو شہر کے اندرونی راستے بند کرنے کی اجازت نہ دی۔
البتہ مظاہرین مغربی اور مشرقی بائی پاس کچھ دیر کے لیے بند کرنے میں کامیاب ہوگئے لیکن پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کرکے انہیں منتشر کر دیا۔
ایئرپورٹ روڈ پر بھی پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی جبکہ سریاب روڈ پر بھی جھڑپیں ہوئیں۔
ایس ایس پی محمد بلوچ نے ڈان کو بتایا کہ گرفتار کیے گئے افراد کو ضلعی جیل بھیج دیا گیا ہے۔
پختونخوا میپ کے سیکریٹری جنرل عبدالرحیم زیارتوال، سابق ایم این اے عبدالقہار وڈان، بی این پی مینگل کے رہنما میر نصیر احمد شاہوانی اور دیگر کو بھی پولیس نے گرفتار کر لیا۔
احتجاج کے باعث نجی تعلیمی ادارے، بشمول اسکول اور کالجز بند رہے، تاہم سرکاری تعلیمی ادارے اور دفاتر کھلے رہے لیکن کم ٹریفک کی وجہ سے بہت کم ملازمین سیکریٹریٹ اور دیگر دفاتر پہنچ سکے۔
صوبے کے دیگر حصوں میں 60 سے زائد گرفتاریاں
صوبے کے دیگر حصوں میں بھی 60 سے زائد افراد کو دفعہ 144 کی خلاف ورزی، شاہراہیں بند کرنے اور سیکیورٹی فورسز سے جھڑپوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ لورالائی، ژوب، سبی، نصیرآباد، خضدار، قلات، ہرنائی، مستونگ، حب بیلا، خاران، نوشکی، قلعہ سیف اللہ، تربت، پنجگور، گوادر، ڈیرہ مراد جمالی اور دیگر شہروں میں بھی پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔ حکام نے کہا ان شہروں میں تقریباً 60 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
خیبرپختونخوا میں بھی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ساتھ حکمران تحریک انصاف نے بھی صوبے بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے۔
یہ ہڑتال کا اعلان پختونخوا میپ، بی این پی، تحریک انصاف، اے این پی، نیشنل پارٹی اور مجلس وحدت المسلمین نے گزشتہ ہفتے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا تھا تاکہ 2 ستمبر کے خودکش دھماکے کے خلاف احتجاج کیا جا سکے۔
سردار اختر مینگل، محمود خان اچکزئی، سابق سینیٹر میر کبیر محمد شاہی اور اے این پی کے رہنما اصغر اچکزئی اس حملے میں بال بال بچے کیونکہ وہ چند منٹ پہلے ہی وہاں سے نکلے تھے۔
پریس کانفرنس
پیر کی شام کوئٹہ پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی کے میپ کے لالہ عبدالرؤف، بی این پی کے ساجد ترین ایڈووکیٹ، اے این پی کے اصغر اچکزئی، نیشنل پارٹی کے اسلم بلوچ، جماعت اسلامی کے زاہد اختر اور تحریک انصاف کے داؤد شاہ اچکزئی نے حکومت کی جانب سے ہڑتال ناکام بنانے کی کوششوں کی مذمت کی، انہوں نے لاٹھی چارج، آنسو گیس کی شیلنگ اور پُرامن مظاہرین کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں پر تنقید کی اور مزید احتجاجی ریلیاں نکالنے کا اعلان کیا۔
رہنماؤں نے اعلان کیا کہ 11 ستمبر کو بلوچستان بھر کے پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کیا جائے گا جبکہ اتحاد کی سینئر قیادت کا اجلاس 13 ستمبر کو طلب کیا گیا ہے تاکہ مستقبل کے لائحہ عمل کو حتمی شکل دی جا سکے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر گرفتار سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کو رہا نہ کیا گیا تو 13 ستمبر کے اجلاس میں مزید سخت اقدامات کا اعلان کیا جائے گا۔












لائیو ٹی وی