پاکستانی حکام نے مبینہ طور پر 40 لاکھ سے زائد شہریوں کی خفیہ نگرانی کی، ایمنسٹی رپورٹ
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستانی حکام نے مبینہ طور پر 40 لاکھ سے زائد شہریوں کی بڑے پیمانے پر خفیہ نگرانی کی ہے، جس کے لیے غیر ملکی نجی کمپنیوں سے حاصل کردہ نگرانی کے آلات استعمال کیے گئے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ ’شیڈوز آف کنٹرول، پاکستان میں سنسرشپ اور بڑے پیمانے پر نگرانی‘ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکام مسلسل غیرقانونی طور پر عام شہریوں، صحافیوں اور نمایاں سیاستدانوں کی خفیہ نگرانی کرتے رہے ہیں۔
عالمی تنظیم کے مطابق پاکستانی حکام مبینہ طور پر لافل انٹرسپٹ مینجمنٹ سسٹم (ایل آئی ایم ایس) کے ذریعے ٹیلی کمیونی کیشن پرووائیڈرز سے جُڑے ہوئے لاکھوں صارفین کی ڈیجیٹل سرگرمیوں کی نگرانی کرتے ہیں۔
رائٹرز سے گفتگو میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ماہر ٹیکنالوجی جُر وین برگے نے بتایا کہ چونکہ چاروں بڑے موبائل آپریٹرز کو ایل آئی ایم ایس سے منسلک ہونے کا حکم دیا گیا ہے، اس لیے زیر نگرانی فونز کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔
رپورٹ میں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ٹیلی کمیونیکیشن فراہم کنندگان پر لازم ہے کہ اپنے صارفین کے کم از کم 2 فیصد حصے کی نگرانی یقینی بنائیں۔
مزید کہا گیا کہ حکام ڈبلیو ایم ایس 2.0 نامی فائر وال بھی استعمال کرتے ہیں جو انٹرنیٹ ٹریفک کی جانچ کرتا ہے اور ایک وقت میں 20 لاکھ فعال سیشنز کو بلاک کر سکتا ہے۔
ایل آئی ایم ایس ایک جرمن کمپنی یوٹیماکو کا تیار کردہ نظام ہے، جو انٹرنیٹ ٹریفک اور موبائل کمیونی کیشن جیسے ایس ایم ایس اور وائس میسجنگ کو درجہ بندی کرکے حکام کے لیے محفوظ کرتا ہے تاکہ اس کا تجزیہ کیا جا سکے، یہ ٹیکنالوجی 2007 سے پاکستان میں استعمال ہو رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس نظام سے حکام صرف فون نمبرز کے ذریعے صارف کا ڈیٹا دیکھ سکتے ہیں، جسے بعد میں مانیٹرنگ سینٹر نیکسٹ جنریشن ( ایم سی این جی) کے ذریعے قابل رسائی بنایا جاتا ہے، یہ سسٹم ڈیٹا فیوژن کا تیار کردہ ہے۔
جو حکام کو یہ جاننے کی سہولت فراہم کرتا ہے کہ کون کس سے بات کر رہا تھا، کب کر رہا تھا، کون سی ویب سائٹس دیکھی گئیں، آیا کسی نے واٹس ایپ یا وی پی این استعمال کیا اور صارف کہاں موجود تھا۔
رپورٹ نے بڑے پیمانے پر نگرانی کے اس عمل کو تکنیکی اور قانونی تحفظات کی کمی کا نتیجہ قرار دیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یاد دلایا کہ ایل آئی ایم ایس سسٹم کے کام کرنے کا انکشاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں بشریٰ بی بی بنام فیڈریشن آف پاکستان کیس کے دوران ہوا، جب 2022 اور 2023 میں سیاستدانوں اور عوامی شخصیات کی فون کالز کے لیک ہونے کے کئی واقعات سامنے آئے، اس مقدمے کا مقصد ان ریکارڈنگز اور ٹیلی کام کی نگرانی کی قانونی حیثیت کی چھان بین کرنا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پی ٹی اے نے ٹیلی کام لائسنس یافتہ کمپنیوں کو ہدایت دی تھی کہ وہ اپنے خرچ پر ایل آئی ایم ایس کو درآمد اور انسٹال کریں تاکہ اسے ’مخصوص ایجنسیوں‘ کے استعمال میں لایا جا سکے۔
ایمنسٹی کے مطابق ٹیکنالوجی کے اس طرح استعمال سے آزادی اظہار اور شہریوں کے حقِ رازداری پر منفی اثر پڑتا ہے، جو سماجی اور سیاسی فضا کو محدود کرتا ہے۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ یہ نگرانی اور اس کی باہمی مربوطیت مزید بڑھے گی جب ڈیجیٹل نیشن پاکستان ایکٹ 2025 نافذ ہوگا، جس کا مقصد شہریوں کے لیے ڈیجیٹل شناخت بنانا، سماجی، معاشی اور حکومتی ڈیٹا کو مرکزی شکل دینا ہے۔
انٹرنیٹ سنسرشپ اور شٹ ڈاؤنز
رپورٹ کے مطابق بڑے پیمانے پر نگرانی پاکستان میں انٹرنیٹ سنسرشپ کے ساتھ مل کر چلتی ہے، جو ویب مانیٹرنگ سسٹم (ڈبلیو ایم ایس) کے ذریعے ممکن بنائی جاتی ہے، انٹرنیٹ سنسرشپ میں مخصوص مواد کو بلاک کرنا، انٹرنیٹ کی رفتار کو سست کرنا یا مکمل طور پر بند کر دینا شامل ہے۔
ڈبلیو ایم ایس کا پہلا ورژن 2018 میں کینیڈا کی کمپنی سینڈ وائن نے انسٹال کیا تھا تاہم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق بعد میں اسے ایک چینی کمپنی گیج نیٹ ورکس کے زیادہ جدید نظام سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔
یہ نیا نظام چین کے گریٹ فائر وال کا تجارتی ورژن ہے، جو چینی حکومت انٹرنیٹ سنسرشپ کے لیے استعمال کرتی ہے، اس کی تنصیب میں امریکی کمپنی نیاگارا نیٹ ورکس فرانسیسی کمپنی تھیلس اور چینی کمپنی نیو ایچ تھری سی ٹیکنالوجیز نے بھی تعاون کیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 2016 میں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے نفاذ کے بعد سے پی ٹی اے نے 14 لاکھ سے زیادہ یو آر ایلز بلاک کیے ہیں۔
ایمنسٹی کے مطابق اس عمل میں شفافیت کی کمی ہے، صارفین کو پیشگی اطلاع نہیں دی جاتی اور صارف اُس وقت یہ جان سکتے ہیں جب وہ کسی ویب سائٹ تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے۔
انٹرنیٹ شٹ ڈاؤنز
ایمنسٹی کے مطابق پاکستان میں موبائل اور انٹرنیٹ سروسز کو ’قانون پر عمل درآمد اور امن و امان کے نام’ پر بار بار بند کیا گیا، کیپ اٹ آن اتحاد کے اعداد و شمار کے مطابق 2016 سے 2024 کے دوران پاکستان میں کم از کم 77 مرتبہ انٹرنیٹ شٹ ڈاؤنز ہوئے، جن میں سے 24 صرف 2024 میں رپورٹ ہوئے۔
ان میں مخصوص سائٹس یا مواد کو بلاک کرنا اور بینڈ وِڈتھ تھراٹلنگ شامل تھی، خصوصاً پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ورچوئل ر یلیوں اور عام انتخابات 2024 کے دوران۔
او او این آئی (اوپن آبزرویٹری آف نیٹ ورک انٹرفیرنس) کے مطابق عام انتخابات سے کچھ دن قبل کئی ویب سائٹس بلاک کی گئیں، جن میں پی ٹی آئی کی پارٹی ویب سائٹ، امیدواروں کی ویب سائٹ اور تحقیقی نیوز پورٹل ’فیکٹ فوکس‘ شامل تھے۔
ایمنسٹی نے کہ کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ نیا فائر وال پاکستانی ٹیلی کام پرووائیڈرز کے ذریعے مؤثر طریقے سے استعمال ہو رہا ہے تاکہ اہم ذرائع ابلاغ کو بند کیا جا سکے۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حالیہ انٹرنیٹ بندشوں کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ نےکہا کہ یہ اقدامات اکثر احتجاج اور سیاسی ریلیوں کو روکنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔
ایمنسٹی کے مطابق اس رپورٹ میں جن 4 کمپنیوں گیج نیٹ ورکس، نیاگارا نیٹ ورکس، ڈیٹا فیوژن اور یوٹیماکو، کا نام لیا گیا ہے، انہوں نے مبینہ طور پر پاکستان میں بڑے پیمانے پر خفیہ نگرانی کو ممکن بنایا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں کردار ادا کیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ پاکستانی حکام کی بڑے پیمانے پر نگرانی اور غیرقانونی سنسرشپ بنیادی انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزی ہے۔
تنظیم نے زور دیا کہ مزید نقصان کو روکنے کے لیے ’فوری اقدامات‘ کیے جائیں، کیونکہ ’بے قابو ڈیجیٹل جبر‘ جمہوریت کے لیے گنجائش کو محدود کر دے گا۔












لائیو ٹی وی