• KHI: Partly Cloudy 19.8°C
  • LHR: Fog 11.8°C
  • ISB: Rain 13.3°C
  • KHI: Partly Cloudy 19.8°C
  • LHR: Fog 11.8°C
  • ISB: Rain 13.3°C

پاکستان کا مشرق وسطیٰ میں اسرائیل مخالف اتحاد کیلئے مسلم امہ کے ساتھ کھڑے ہونے کا پیغام

شائع September 16, 2025
— اسکرین گریب: الجزیرہ انگلش، یوٹیوب
— اسکرین گریب: الجزیرہ انگلش، یوٹیوب

نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے پاکستان کی طرف سے بطور ایٹمی طاقت مسلم امہ کے ساتھ کھڑے رہنے کا پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج ’بہت بڑی‘ اور ’موثر‘ ہیں اور انہوں نے روایتی جنگ میں اپنی صلاحیتیں ثابت کی ہیں۔

قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کو دیے گئے انٹرویو میں اسحٰق ڈار نے یہ بات اس سوال کے جواب میں کہی کہ اگر مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی جارحیت روکنے کے لیے کوئی مشترکہ ادارہ قائم کیا گیا تو اسلام آباد کس موقف پر کھڑا ہوگا۔

یہ انٹرویو پیر کو رات دیر گئے نشر ہوا جس میں الجزیرہ کے اسامہ بن جاوید نے نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار سے گفتگو کی تھی، انہوں نے وزیر خارجہ سے پوچھا کہ کیا اقوامِ متحدہ کے دائرہ کار سے ہٹ کر مشرقِ وسطیٰ میں کوئی متحدہ ادارہ غزہ میں مداخلت کے لیے متوقع طور پر تشکیل دینے کا آپشن زیرِ غور ہے۔

اس کے جواب میں اسحٰق ڈار نے ابتدا میں کہا کہ ’سلامتی کونسل کے طرز پر ایک طریقہ کار وضع کیا جاسکتا ہے، مثال کے طور پر، انہوں نے ان ممالک پر بہت سخت پابندیاں عائد کی ہیں جو ان کی بات نہیں مانتے، اور یہ کسی بھی ملک کے لیے ایک بہت شدید اقتصادی دھچکا یا تکلیف کا سبب بن سکتی ہیں’۔

میزبان نے سوال کیا کہ کیا حالیہ بات چیت میں عرب ممالک اور عرب لیگ کے درمیان ’کسی قسم کی مشترکہ سیکیورٹی فورس‘ کے بارے میں بات ہوئی ہے؟

’عرب ممالک کی مشترکہ فوج ہونی چاہیے‘

اسحٰق ڈار نے کہا، ’کیوں نہیں؟ اس میں کیا برا ہے؟ ان کی ایک مشترکہ فوج ہونی چاہیے، اور اپنی صلاحیت اور قوت کے مطابق انہیں کوئی طریقہ کار بنانا چاہیے، جس کا مقصد جارحیت نہیں بلکہ امن قائم کرنا ہو، جارح اور قابض کو روکنا ہو، اس شخص کو روکنا ہو جو کسی کی نہیں سنتا‘۔

میزبان کے اس سوال پر کہ ’جوہری قوت رکھنے والا پاکستان‘ اس صورتِ حال میں کہاں کھڑا ہوگا؟ اسحٰق ڈار نے جواب دیا ’جوہری قوت رکھنے والا پاکستان، امت کے رکن کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کرے گا‘۔

میزبان نے پھر کہا کہ وہ اس جواب کی مزید وضاحت چاہیں گے، اس پر نائب وزیراعظم نے واضح کیا کہ پاکستان جوہری ہتھیاروں کو صرف دشمن کو باز رکھنے والی قوت سمجھتا ہے اور انہیں استعمال کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا، ہمارا جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا کوئی ارادہ نہیں، یہ صرف ‘ڈیٹیرنس‘ کے لیے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ’لیکن پاکستان کی ایک بہت بڑی، معروف، بہت موثر فوج ہے، بہت موثر ایئرفورس ہے، بہت موثر بحریہ ہے، ہم نے ثابت کیا ہے کہ روایتی طور پر بھی اگر چیلنج کیا جائے تو ہم اپنے حریف کو مات دے سکتے ہیں‘۔

انٹرویو کے دوران قطر میں حماس کے رہنماؤں پر اسرائیل حملے کا بھی بھی ذکر آیا، اس پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اسحٰق ڈار نے کہا کہ کسی خودمختار ملک پر حملہ کرنے کی اسرائیل کی وجوہات ’مکمل طور پر بے بنیاد‘ ہیں۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ جب یہ حملہ ہوا تو قطر، امریکا اور مصر کے ساتھ مل کر غزہ میں امن قائم کرنے کے لیے مذاکرات کی ثالثی کر رہا تھا، اسحٰق ڈار نے اسرائیل کی اس کارروائی کو ’غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیا۔

انہوں نے زور دیا کہ اسرائیل، مشرقِ وسطیٰ کے متعدد ممالک پر حملہ کر چکا ہے اور بین الاقوامی قوانین، انسانی ہمدردی کے اصول، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور سلامتی کونسل کی قراردادیں ایک ایسے ملک پر بالکل بھی اثر انداز نہیں ہو رہیں جو بار بار اپنی مرضی کے مطابق اقدامات کرتا ہے۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ کثیرالجہتی نظام کو ابھی فوری طور پر بہت سنگین اصلاحات کی ضرورت ہے‘۔

’ریاست بڑی ہو یا چھوٹی، اس کی عزت و وقار یکساں ہونا چاہیے‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل دنیا میں امن قائم رکھنے کے لیے بنی ہے، اور اگر اس کی قراردادوں کو محض ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے، جیسا کہ کئی سالوں سے اسرائیل، غزہ اور فلسطین جبکہ بھارت، کشمیر میں کر رہا ہے، تو ہم اس کثیرالجہتی نظام سے کیا توقع رکھیں؟’

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا دنیا کے تمام مسلمان ممالک برابر وزن رکھتے ہیں اور ’وہ کردار ادا کر رہے ہیں جو انہیں کرنا چاہیے؟‘ تو اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان کا یقین ہے کہ چاہے کوئی ریاست بڑی ہو یا چھوٹی، اس کی ’عزت اور وقار یکساں ہونا چاہیے‘۔

اس حوالے سے وہ ہمیشہ بھارت کی مثال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’کچھ ملک دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ بالادستی رکھتے ہیں، خطے کے سیکیورٹی فراہم کنندہ ہیں، پورے خطے کے کپتان ہیں، لیکن آپ نے دیکھا کہ 7 سے 10 مئی کے درمیان کیا ہوا، سب کچھ واضح ہوگیا، بالادستی دفن ہوگئی‘، اسحٰق ڈار کا اشارہ دراصل پاکستان اور بھارت کے درمیان 4 روزہ مسلح کشیدگی کی طرف تھا۔

نائب وزیر اعظم نے مزید کہا کہ اس وقت پاکستان کی عسکری کارروائی دراصل دفاع میں تھی۔

’غزہ کے مسئلے پر سفارت کاری اور مذاکرات بہترین آپشن ہیں‘

ایک ضمنی سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کے نزدیک غزہ کے مسئلے پر سفارت کاری اور مذاکرات بہترین آپشن ہیں، اس میں وقت لگتا ہے لیکن جب آپ میز پر بیٹھتے ہیں تو حل تک پہنچ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ میز پر بیٹھنے کے لیے تیار نہیں، اگر آپ مخلص نہیں اور آپ کے توسیع پسندی جیسے منفی اور بُرے عزائم ہیں، تو پھر آپ کبھی بھی مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہوں گے، اس لیے مذاکرات میں اخلاص بھی ضروری ہے۔

جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا اسرائیل، قطر کے بعد پاکستان پر بھی حملہ کر سکتا ہے تو اسحٰق ڈار نے یاد دلایا کہ بھارت نے یہ کوشش کی تھی اور ہماری معلومات کے مطابق اسرائیل نے اسے مکمل تعاون فراہم کیا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ دعویٰ بے نقاب ہوگیا۔

’سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کرانے کا طریقہ کار ہونا ہے‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم تیار ہیں، دوبارہ دہراتا ہوں کہ ہم امن چاہتے ہیں، ایک جوہری طاقت رکھنے والی ریاست خطے میں عدم استحکام نہیں چاہتی کیونکہ اس کے اثرات خطے سے بھی آگے جائیں گے‘، انہوں نے ساتھ ہی زور دیا کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں میں اصلاحات کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور بھارت واحد ایسے ممالک ہیں جو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی پابندی نہیں کرتے، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سلامتی کونسل میں ایک ایسا طریقہ کار تیار کیا جانا چاہیے جو عملی اقدامات اٹھا سکے تاکہ اگر قراردادوں پر عمل نہ ہو تو صورتحال کو قابو میں رکھا جا سکے اور اس کے لیے ممکن ہے کہ عملی کارروائیاں یا عملی مداخلتیں درکار ہوں۔

کارٹون

کارٹون : 20 دسمبر 2025
کارٹون : 18 دسمبر 2025