پاکستان افغانستان کےساتھ سیاسی تصفیہ تلاش کرے، اہم امریکی عہدیدار کا مطالبہ

شائع September 17, 2025
سابق سفارتکار نے حال ہی میں امریکی یرغمالیوں کے ایلچی ایڈم بوہلر کے ہمراہ کابل کا دورہ کیا تھا — فوٹو: اے ایف پی
سابق سفارتکار نے حال ہی میں امریکی یرغمالیوں کے ایلچی ایڈم بوہلر کے ہمراہ کابل کا دورہ کیا تھا — فوٹو: اے ایف پی

اہم امریکی عہدیدار نے اسلام آباد پر زور دیا ہے کہ وہ کابل کے ساتھ سیاسی تصفیہ تلاش کرے، یہ بیان پاکستان کی جانب سے افغان طالبان کو یہ انتخاب کرنے کے لیے کہنے کے چند روز بعد سامنے آیا ہے کہ وہ اپنے ہمسائے (پاکستان) کا انتخاب کرے یا کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق ٹرمپ انتظامیہ کے دوران افغانستان کے لیے نامزد کردہ امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کہا کہ افغانستان کو ایسے مذاکرات میں پاکستان کی مدد کرنی چاہیے۔

سابق سفارت کار نے حال ہی میں امریکی یرغمالیوں کے ایلچی ایڈم بوہلر کے ہمراہ کابل کا دورہ کیا تھا، جہاں انہوں نے افغان طالبان حکومت کے اہم ارکان سے ملاقات بھی کی تھی۔

اپنے دورے کے اختتام پر ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں میں زلمے خلیل زاد نے نشاندہی کی کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور ٹی ٹی پی کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں بڑی تعداد میں سیکیورٹی اہلکار اور شہری شہید ہو چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس چیلنج کا فوجی حل تلاش کرنا ایک غلطی ہے، اور اسلام آباد سے کہا کہ وہ ’سیاسی حکمت عملی اپنائے اور مذاکرات کرے‘۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ 2021 سے قبل امریکا اور افغان حکومت کو مشورہ دیتی تھی کہ وہ طالبان سے مذاکرات کریں اور سیاسی تصفیہ کریں، اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان خود بھی یہی کرے۔

یہ پیغام ایسے وقت میں آیا ہے، جب چند روز قبل وزیرِاعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کابل کو دو ٹوک پیغام دیا تھا۔

وزیرِاعظم شہباز شریف نے بنوں کے دورے کے دوران آرمی چیف کے ہمراہ کہا تھا کہ ’میں افغانستان کو یہ واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ پاکستان اور ٹی ٹی پی میں سے ایک کا انتخاب کرے‘۔

اگرچہ صدر ٹرمپ اور امریکی فوجی حکام جیسے کہ سینٹ کام کے سربراہ جنرل مائیکل کُریلا بارہا پاکستان کے انسدادِ دہشت گردی تعاون کی تعریف کر چکے ہیں، جس کی نمایاں مثال کابل ایئرپورٹ کے ایبی گیٹ حملے میں ملوث داعش-خراسان کے کارندے کی گرفتاری ہے، مگر زلمے خلیل زاد کا یہ پیغام پہلی نشانی ہے کہ امریکا چاہتا ہے کہ اسلام آباد اور کابل دونوں مذاکرات کی میز پر آئیں۔

واشنگٹن کے حلقوں میں خلیل زاد کو ایک سخت گیر مؤقف رکھنے والا سمجھا جاتا ہے، وہ کھلے عام پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے قید میں موجود بانی عمران خان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور ماضی میں پاکستان پر تنقید کر چکے ہیں۔

گزشتہ ماہ ایک ٹویٹ میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ افغانستان کی داعش-خراسان کے خلاف کامیاب کارروائیوں نے ان کی قیادت کو پاکستان میں دھکیل دیا ہے، اور یہ بھی الزام لگایا تھا کہ پاکستان اب اس گروہ کے لیے ایک ’محفوظ پناہ گاہ‘ بنتا جا رہا ہے۔

عمران خان کا مذاکرات کا مطالبہ

زلمے خلیل زاد کے بیانات نے قید سابق وزیراعظم کے مؤقف کی بازگشت کی، جنہوں نے بھی اپنی جماعت کی حکومت والے صوبہ خیبر پختونخوا میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے مذاکرات پر زور دیا ہے۔

منگل کو ’ایکس‘ پر پوسٹ میں عمران خان نے کہا تھا کہ سابقہ قبائلی علاقوں میں شروع کی جانے والی کارروائیوں کے باعث پولیس، فوج اور شہریوں کی اموات بڑھ رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ طریقہ کبھی بھی امن قائم نہیں کر سکتا، پائیدار امن صرف مذاکرات سے آتا ہے، خیبر پختونخوا میں جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ محض پی ٹی آئی حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش ہے، اور ایک فوجی آپریشن مزید دہشت گردی کو ہوا دے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے پولیس کو دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے ہٹایا جا رہا ہے، طرزِ حکمرانی اور امن و امان کا نظام بیٹھ جائے گا۔

انہوں نے کہا تھا کہ تمام کے پی ارکان اسمبلی کو چاہیے کہ وزیراعلیٰ کے ساتھ بیٹھ کر صوبے کے مسائل فوری طور پر حل کریں، اور اپنے اتحادیوں — خصوصاً تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان کے رہنما محمود خان اچکزئی سے کہا کہ وہ افغانستان میں ایک امن وفد بھیجیں۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025