’عرب ممالک اسرائیل کے خلاف متحد نہیں، تقسیم کا شکار گھر اپنی حفاظت نہیں کرسکتا‘
عرب اسلامی ممالک کے رہنماؤں کے دوحہ میں ہونے والے انتہائی اہم ہنگامی سربراہی کانفرنس کا اختتام ایک طرح سے بےنتیجہ رہا۔ مشترکہ اعلامیے میں مضبوط بیان بازی کی گئی لیکن کوئی حقیقی اقدامات یا کارروائی نہیں کی گئی۔
گزشتہ ہفتے قطر پر صہیونی حملے کے بعد اسرائیل کو فیصلہ کن جواب دینے کے لیے دوحہ میں تقریباً 60 ممالک کے سربراہان جمع ہوئے۔ لیکن یہاں صرف لفظی بیان بازی ہوئی، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت سے نمٹنے یا علاقائی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کوئی حقیقی حکمت عملی طے نہیں کی گئی۔
اسرائیل کی طرف سے قطر پر حملہ ایک خودمختار عرب ملک کے خلاف ڈھٹائی کا مظاہرہ تھا۔ صہیونی ریاست کو ایک بار پھر اس حد کو عبور کرتے ہوئے دیکھا گیا کہ جب اس نے خلیج میں امریکا کے قریبی اتحادیوں میں سے ایک کو نشانہ بنایا جو خطے میں سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ بھی رکھتا ہے۔ پوری عرب دنیا میں غصے کی لہر دوڑ گئی اور اس حملے کی بین الاقوامی سطح پر مذمتوں سے یہ توقعات بڑھ گئیں کہ اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے۔
رواں سال قطر، اسرائیل کی طرف سے حملے کا نشانہ بننے والا خطے کا چھٹا ملک تھا۔ جبکہ اسرائیل غزہ میں اپنی نسل کشی کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل اب تک غزہ میں 65 ہزار سے زائد افراد کو شہید کر چکا ہے جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ 10 لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ خوراک کی محدود فراہمی اور اسرائیلی دشمنی کے نہ رکنے والے سلسلے کے باعث مقبوضہ انکلیو کی پوری آبادی اس وقت خطرے میں ہے۔ روزانہ سیکڑوں بچے بھوک سے شہید ہورہے ہیں۔
اسلامی بلاک حالیہ تاریخ کی بدترین نسل کشی کا خاموش تماشائی بنا ہے۔ بعض عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی اور تجارتی تعلقات کو بھی برقرار رکھا ہوا ہے۔ یہ سچ ہے کہ احتجاج کی کچھ آوازیں اٹھیں لیکن یہ زیادہ نہیں۔ پھر اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا، شام کے اندر مزید علاقوں پر قبضہ کیا جبکہ یمن اور ایران پر بھی بمباری کی۔
جون کے مہینے میں ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکا اور اسرائیل کی مشترکہ فوجی کارروائی، ایک خودمختار ریاست کے خلاف سب سے شرمناک اقدام تھا۔ اس کے باوجود معمولی مذمتی بیانات کے علاوہ مسلم دنیا نے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔
صہیونی ریاست نے اپنی فوجی کارروائیوں کا دائرہ مغربی کنارے تک بڑھا دیا ہے اور فلسطینی اراضی پر زبردستی قبضہ کرکے آبادکاری کو وسعت دینے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ اب اسرائیل کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ پر مستقل طور پر قبضہ کرنے اور اس کی پوری آبادی کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی اور عرب ممالک پر حملے کو امریکا کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
اسرائیل کو امریکا سے اربوں ڈالرز کی فوجی امداد ملتی ہے اور اسے خطے میں اپنی فوجی کارروائیوں میں واشنگٹن کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ یہی نہیں عرب ممالک اپنے فوائد کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کو روکنے کے لیے واشنگٹن پر کسی بھی قسم کا دباؤ ڈالنے میں ناکام رہے ہیں جبکہ انہیں عرب ممالک نے موسم گرما میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہِ مشرق وسطیٰ میں امریکی صدر کو خوش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔
خلیجی ممالک کے شیخوں نے امریکا میں کھربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا۔ قطر نے ٹرمپ کو 40 کروڑ ڈالرز کا طیارہ تحفے میں دیا، اس کے علاوہ اسلحے کی خریداری کے لیے امریکا کے ساتھ اربوں ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ لیکن ان سے بھی امریکا کے قریبی اتحادی کو تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں ملی۔
گزشتہ ہفتے اسرائیل کے لڑاکا طیاروں نے دوحہ کے ایک محلے میں ایک رہائشی عمارت کو نشانہ بنایا تھا جس میں حماس کے پانچ اراکین اور ایک قطری سیکیورٹی اہلکار جاں بحق ہو گئے تھے۔ حملے میں حماس کی مذاکراتی ٹیم کو نشانہ بنایا گیا جو ٹرمپ انتظامیہ کے تجویز کردہ ایک نئے امن منصوبے پر بات چیت کے لیے جمع ہوئی تھی۔ حماس کے ایک اعلیٰ رہنما بھی موجود تھے۔ انہوں نے مبینہ طور پر زیادہ تر تجاویز پر اتفاق کیا تھا کہ ایسے میں اسرائیل نے حملہ کردیا اور مذاکرات کرنے والے 5 اراکین تو زندہ بچ گئے لیکن دیگر اراکین شہید ہوگئے۔
صاف ظاہر تھا کہ اسرائیلی حملے کا مقصد جنگ بندی کے کسی امکان کو سبوتاژ کرنا تھا۔ قطر تقریباً دو سال قبل غزہ پر حملے کے بعد سے اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی کی کوششوں میں شامل رہا ہے۔ دوحہ نے مذاکرات میں مصروف اسرائیلی حکام کی بھی میزبانی کی جنہیں امریکی حمایت حاصل تھی۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے اس حملے کو درست قرار دیتے ہوئے یہ ظاہر کیا کہ جیسے انہیں واشنگٹن کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ انہیں اسرائیل کے حملے کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی گئی اور انہیں امریکی فوجی ذرائع سے حملے کے بارے میں معلوم ہوا۔
اور پھر بھی قطر کو خبردار نہیں کیا گیا تھا جوکہ اگر ہم غور کریں تو کافی دلچسپ ہے کیونکہ ہزاروں امریکی فوجی اس ملک میں مقیم ہیں۔ مزید یہ کہ قطر کے فضائی دفاعی نظام کو امریکی ٹیکنالوجی کی مدد حاصل ہے۔ ٹرمپ نے اس حملے پر ناراضی کا اظہار کیا لیکن کبھی بھی اسرائیل کا نام لے کر مذمت نہیں کی۔ ناقدین کا خیال ہے کہ قطر اور دیگر خلیجی شیخوں کا امریکا پر حد سے زیادہ انحصار ان ریاستوں کو اسرائیلی جارحیت کے لیے انتہائی کمزور بنا دیتا ہے۔
سربراہی اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ اسرائیل کی ’وحشیانہ‘ جارحیت ’اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے کی راہ میں موجود تمام عناصر کو خطرے میں ڈالتی ہے جن میں موجودہ اور مستقبل کے معاہدے شامل ہیں‘۔ اس بیان میں امریکا سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ اسرائیل کو روکنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔ یہ تجویز بہت کم معنی رکھتی ہے کیونکہ صہیونی ریاست کی مضبوط لابی کا امریکی انتظامیہ پر گہرا اثر ہے۔
جب عرب اور دیگر مسلم ممالک کے سربراہان اسرائیل کے خلاف متحدہ کارروائی پر غور کر رہے تھے، نیتن یاہو نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں اشارہ دیا کہ وہ حماس کے رہنماؤں کو ختم کرنے کے لیے قطر پر دوبارہ حملہ کریں گے۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان اختلافات کی خبروں کے باوجود دونوں متحد نظر آئے۔ اعلیٰ امریکی سفارت کاروں نے امن معاہدے کے امکانات پر شک ظاہر کیا ہے جس سے غزہ جنگ ختم ہو سکتی ہے۔
یقینی طور پر عرب ممالک کے ہاتھ میں کچھ ایسے اختیارات ہیں جن سے وہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور وہ انہیں اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں لیکن ٹھوس کارروائی پر ان کے درمیان اتحاد نظر نہیں آیا۔ ان ممالک کے مفادات مختلف ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ان کے لیے بڑھتے ہوئے اسرائیلی خطرے سے نمٹنے کے لیے مؤثر حکمت عملی پر اتفاق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
بعض عرب ممالک اقتصادی یا سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ خود تقسیم کا شکار گھر اپنی حفاظت نہیں کر سکتا۔ یکجہتی کے بیانات اکثر محض دکھاوے کے لیے ہوتے ہیں اور ان کا کوئی حقیقی مطلب نہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔












لائیو ٹی وی